مقصود اعوان، لاہور
لاہور میں وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں صوبائی کابینہ کے کئی ارکان کی کارکردگی سوالیہ نشان رہی۔ وزیر اعظم نے زراعت، خوراک، صحت اور بالخصوص اطلاعات کے وزراء کی گزشتہ چھ ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد اپنے شدید تحفضات کا اظہار کیا۔وزیراعظم نے ان وزراء کو الگ الگ مخاطب کر کے کہا کہ اگر اگلے دو ماہ میں اب وزراء نے اپنے محکمے کی کارکردگی کو بہتر نہ بنایا تو ان کے قلمدان واپس لئے جاسکتے ہیں۔وزیر اعظم نے وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کے بیانات، میڈیا میں ہونے والا واقعات اور حکومت پنجاب کی طرف سے 18 ترجمان مقرر کرنے کے نوٹیفیکیشن پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے ہندو برادری کے متعلق جو زبان استعمال کی اس پر وزیر اعظم سخت ناراض ہوئے جس بنا پر فیاض الحسن چوہان کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے پہلے بھی بعض وزراء نے فیاض الحسن چوہان کے رویئے اور بیانات کے بارے میں وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا جس پر وزیراعظم نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ وزیر اعظم نے ان وزراء سے یہ بھی کہا کہ آپ کو ایک موقع دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے محکمے کی کارکردگی بہتر بنائیں اور میڈیا سے اچھے تعلقات استوار کریں۔ حکومت کے پروگرام اور اپنے محکموں کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کیلئے فوکل پرسن مقرر کریں جو حکومت، میڈیا اور عوام کے درمیان بہتر طریقہ کار اور آگاہی کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں تا کہ حکومت اور عوام میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا کاتمہ اور افواہوں کا تدارک ہوسکے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ عوام کو صحت ، تعلیم ، انصاف اور پینےکے صاف پانی کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہے میں اس حوالے سے پنجاب حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہون۔وزیر اعظم نے مہنگائی پر کنٹرول اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے لاہور کے دورےمیں صوبائی کابینہ کے غیر رسمی اجلاس سےبھی خطاب کیا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار اور گورنرپنجاب چودھری محمد سرور سے الگ الگ ملاقاتیں کرکے حکومت کی گزشتہ 6ماہ کی کارکردگی پر تبادلہ خیال کیا۔وزیراعظم نے خوراک، زراعت، خزانہ اور اطلاعات کے وزراء کی کارکردگی پر سوالات کئے اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔اس موقع پر جہانگیر ترین اور ان کے رفقاء بھی موجود تھے ۔وزیر اعظم نے وزراء کو ہدایت کی کہ وہ کسانوں کے مسائل کے فوری ازالہ کے لئے اپنے محکموں میں فوکل پرسن بنائیں جو ان کے محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے عوام اور میڈیا کو صورتحال سے آگاہ کریں۔وزیر اعظم نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ گندم کے پرانے ذخائر کو ختم کیا جائے گندم امپورٹ کی جائے اور اپریل سے کسانوں سے گندم تمام بلاتفریق خریدنے کے انتظامات کئے جائیں آلو کی فصل سے کسانوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے محکمہ شماریات سے مل کر تمام محکمے منصوبے بندی کریں کہ کسانوں کو ڈیمانڈ کے مطابق فصل کاشت کرنے میں ان کی رہنمائی کی جائے اور مذکورہ محکموں کے وزراءکو وزیر اعظم نے برملا کہاکہ ان کی وزارتیں ان کی آئندہ کارکردگی پر مشروط ہے جو وزراء عوام کو ڈیلور نہیں کریں گے ان کے محکمے واپس لئے جا سکتے تھے یا تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ اور گورنر پنجاب کی مشاورت سے اپریل کے پہلے ہفتے میں وفاقی کابینہ میں مزید 3نئے وزراء شامل کرنے اور پنجاب میں کم از کم 7وزراء کے محکموں کی تبدیلی کا اشارہ دیا ہے۔ وزیراعظم کے پنجاب حکومت کے ڈیڑھ درجن ترجمان مقرر کرنے پر بھی اپنی برہمی کا اظہار کیا کہ یہ لوگ تو پہلے ہی ٹی وی پروگراموں میں پارٹی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے رمضان المبارک سے قبل تمام شہروں میں رمضان بازار میں عوام کو ضروریات زندگی کی تمام اشیا کو سستے داموں فراہم کرنے کے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس حوالے سے ٹاسک فورس پنجاب کے کنوینر محمد اکرم چودھری کی سفارشات پر عمل کرایا جائے جو اس وقت حکومتی ایجنڈے کے مطابق احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت انہیں مکمل سپورٹ کرے ۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ماڈل اور رمضان بازاروں میں کسی بھی شکایت کے فوری ازالہ کے لئے شکایات سیل قائم کئے جائیں تمام ضلعی افسران رمضان اور ا توار بازاروں میں ٹاسک فورس سے مکمل تعاون کریں اجلاس میں وزیر اعظم نے فوڈسپلائی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو زرعی رقبہ پر ہائوسنگ سوسائٹیوں پر پابندی لگانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ہائوسنگ سوسائٹیاں تیزی سے زرعی زمینوں کو نگل رہی ہیں یہ صورتحال مستقبل میں خوراک کا بحران پیدا کر سکتی ہیں ماضی میں حکومتوں کی عدم توجہی اور ناکافی وسائل کے باعث زمیندار کو فصل کی لاگت کے برابر بھی قیمت نہ مل سکی اور زمیندار طبقے کی کاشت کاری بتدریج کم ہوتی گئی اور زرعی زمینیں بیچنے کا رجحان بڑھتا گیا اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے شہروں قصبوں اور دیہات کے اطراف میں وسیع زرعی رقبہ تعمیرات کی نذر ہو گیا جس سے شہروں کی طرف بڑھتی آبادی کنٹرول سے باہر ہونے لگی ہے اس پر قابو پانے کے اقدامات حکومتی ذمہ داری ہے اس کے لئے اس کی منصوبہ بندی کی جائے کہ زمیندار کو فصل کا اچھا معاوضہ ملے تاکہ وہ زرعی زمینیں فروخت کرنے سے قبل سو بار سوچے، وزیر اعظم عمران خان نے زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے کے نتائج کا صحیح ادراک کیا ہے چنانچہ اب دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت زرعی رقبے پر ہائوسنگ سکیموں کی تعمیر پر پابندی عائد کرنے کے دعوے پر کب اور کیسے عمل کرتی ہے کیونکہ سستےداموں زرعی زمینیں خرید کر ہائوسنگ سکیمیں بنا کر ہزاروں گنا زیادہ قیمت پر کمرشل اور رہائشی پلاٹ فروخت کرنے والے بااثر اور طاقتور افراد نے پہلے بھی ماضی کی حکومتوں کے ایسے اقدامات کو ہوا میں اڑا دیا تھا شہری اور نیم شہری علاقوں میں آباد زرخیز زرعی زمینیں تعمیریات کی بھینٹ چڑھا دیں اگر حکومت نے اب بھی اس پر قابو نہ پایا تو ملک کو مستقبل میں خوراک کے بحران سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ وزیراعظم کے احکامات پر کس حد تک
عمل کرتی ہے۔ وطن عزیز اس وقت حالت جنگ میں ہے پلوامہ واقعہ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی آنے سے حالات پہلے کی نسبت بہتر ہوئے ہیں لیکن پاکستان ایئرفورس نے بالاکوٹ پر بھارتی طیاروں کی بمباری کے جواب میں بھارت کو دو دندان شکن جواب دے کر مودی سرکار کو آئینہ دیکھا دیا ہے۔ مودی کی اندر سے رسوائی اور باہر سے پسپائی مودی سرکار کی بوکھلاہٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ بھارت کو اب پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا ۔بھارتی جارحیت کے نتیجے میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اورعسکری قیادت نے وطن کے دفاع میںجو اقدامات کئے اس سے ’’مسئلہ کشمیر ‘‘فلش پوائنٹ بن گیا ہے اب وطن عزیز میں عوام حکومت اور اپوزیشن متحد ہو کر اپنی مسلح افواج کے پشت پر کھڑے ہیں۔ بھارتی جارحیت کا پاکستان کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی اور ملکی سطح پر
پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے اور اپوزیشن کی طرف سے بھی احتجاجی پروگراموں میں سیاست میں فوجی مداخلت پر ہونے وا لی تنقید بھی دم توڑ گئی ہے۔ ملک میں جنگی صورتحال میں کمی ضرور آئی ہےلیکن مشکل وقت تک ہماری مسلح افواج بھارتی الیکشن تک ہائی الرٹ رہے گی کیونکہ مودی سرکار کے انتخاب سے قبل کسی وقت بھی اچانک جارحانہ کارروائی کو خارج ازمکان قرار دیا جا سکتا ہے۔کنٹرول لائن اور پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کے نتیجے میں حکومت کی زیادہ تر توجہ معیشت کی بہتری، سفارتکاری اور بھارتی ممکنہ دوبارہ جارحیت کے منہ توڑ جواب دینے پر مرکوز ہے جس کے باعث حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گرم سیاسی محاذ میں نرمی آئی ہے اب حکومت اور اپوزیشن ملک کے دفاع کے لئے متحد نظرآتی ہے جس کا ثبوت پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں سامنے آیا ہے جو بڑی خوش آئند بات ہے یہ کریڈیٹ بھی مودی سرکار کو جاتا ہے جس نے جنگ کی آگ بھڑکا کرپاکستانی حکومت اور اپوزیشن کو ایک کر دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کتنے عرصے تک متحد رہتی ہے اس کا انحصار وزیر اعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے رویوں پر منحصر ہے ۔