• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ قرار دیا اور شہ رگ 72 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک بھارت کے شکنجے میں ہے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی قر اردادوں پر عملدرآمد کرانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی۔ افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد کے خلاف امریکی حکم پر تو ہم نے جہاد کا علم بلند کرنے والوں کی سرپرستی کی۔روسی فوجوں کی واپس پر جہادی آپس میں لڑپڑے تو طالبان کیخلاف امریکی فوجوں کے داخلے کیلئے ہم نے انہیں تمام سہولتیں فراہم کردیں مگر کشمیریوں کو بھارتی جبرواستبداد سے نجات دلانے کی کامیاب منصوبہ بندی نہ کرسکے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کرکے کشمیریوں کو زبردستی اپنا غلام بنائے رکھنے کا اعلان کردیا تھا، موجودہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان ان علاقوں میں بسنے والوں نے اپنی مدد آپ اور آزاد قبائل کی مدد سے آزاد کروالئے تھے اور بھارتی فوج کو مار بھگایا تھا۔مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کے متوالے قیام پاکستان سے ہی تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں،ابتدا میں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت یہ توقع لگائے جدوجہد کرتی رہی کہ سیاسی عمل کے نتیجہ میں انہیں استصواب رائے کا حق مل جائے گا مگر سیاسی محاذ پر ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان میں سیاسی اور عسکری پلیٹ فارم سے مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کی کوششوں کے علاوہ 1948،1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگیں بھی لڑی گئیں مگر مسئلہ کشمیر حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوگیا۔کشمیریوں نے عسکری جدوجہد بھی جاری رکھی مگر اس عسکری جدوجہد کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سرپرستی نہ مل سکی۔2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک نیا فیز شروع ہوا اور مقبوضہ کشمیر کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ فروری2019 میں پلوامہ میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر بارود سے بھری گاڑی سے خودکش حملے پر بھارت بلبلا اٹھا اور چالیس اہلکاروں کی ہلاکت پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کسی تحقیقات کے بغیر ہی حملے کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر عائد کردی۔ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک کی اخلاقی سفارتی اور قانونی مدد اعلانیہ کرتا ہے اور خود کو کشمیریوں کا وکیل کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جو اپنے ہمسائے بھارت سے تین گنا چھوٹا ہے ،بھارت میں جمہوریت 72 سالہ سینئر ہوچکی ہے جبکہ پاکستان میں جمہوریت وقفے وقفے سے دوبارہ شروع ہوتی ہے۔1973 کے پارلیمانی جمہوری آئین کو بھی دو بارنظریہ ضرورت میں لپیٹ کر رکھ دیا گیا تھا۔پہلے آزادی کشمیر کیلئے سو سال جنگ لڑنے کے عزم کا اظہار کیاگیا پھر کرکٹ ڈپلومیسی اور پھر ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم کو دورہ لاہور کی دعوت دی ،نواسی کی شادی میں مودی کو بھی بلا یاگیا۔ پاکستان اور بھارت 1700 مربع میل طویل بارڈر ہے پاکستان اور بھارت چاہتے ہوئے بھی ہمسائے تبدیل نہیں کرسکتے، دونوں ممالک دفاع پر اپنی’’ اوقات‘‘ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔بھارت کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے 72 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کے خلاف اقدام اٹھانے کیلئے ہر اس ملک سے جا ہاتھ ملایا ہے جسے پاکستان سے زرا بھی تکلیف پہنچی ہو، پلوامہ واقعہ پر پاکستان میں دراندازی کرکے ایک بار تو بھارت کے طیارے واپس چلے گئے مگر دوسری بار آنے والے طیارے نہ صرف نشانے کی زد میں آگئے بلکہ ان کا ایک پائلٹ ابھی نندن بھی فورسز کے قابو میں آگیا، پاکستان نے مدبرانہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف چوبیس گھنٹے بعد ہی اسے چھوڑنے کا اعلان کردیا، وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے اختتام پر بھارتی پائلٹ کو واپس بھیجنے کا اعلان کرکے جنیوا کنونشن کی پاسداری کی اور بھارت کو ایک بار پھر امن کی پیشکش کی۔ او آئی سی کے اجلاس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی عدم شرکت پر تنقید سامنے آئی ۔شاہ محمود قریشی او آئی سی اجلاس میں جاکر 57 اسلامی ممالک میں سے سات کوبھی اپنا ہمنوا بنالیتے تو یہ بڑی کامیابی ہوتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بھی یہی موقف ہے کہ کانفرنس میں جاکر ہمیں دوسروں کو اپنے ساتھ کھڑے کرنا تھا تاکہ وہ ہمارا ساتھ دیتے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے بنگلہ دیش اور افغانستان کو اپنے ساتھ ملا کر وزیرخارجہ سشما سوراج کو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دلائی تھی، او آئی سی اجلاس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان کی قرار داد منظور کرکے اس کی افادیت ختم کردی مگر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر توجہ دینا ہوگا چین سے مل کر ہم نے سی پیک کے جس منصوبے کا آغاز کیا ہے اس کی کامیابی بھی اسی فلسفے پر کامیابی سے ہمکنار ہوگی جو وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں پیش کیا تھا، مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے غلامی کی زندگی کو ترجیح دی مگر دکن کے حکمران ٹیپو سلطان نے غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دی۔ پاکستانی قوم ٹیپو سلطان کو ہیرو سمجھتی ہے، وزیراعظم کے فلسفایا نہ خطاب سے دونوں ملکوں کے عوام اور خواص کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پلوامہ کے کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار نے فدائی حملہ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق نہ دے کربھارت 72 برسوں سے اُن پر ظلم کے جو پہاڑ توڑ رہا ہے اب اس کے ختم ہونے کا وقت آگیا ہے ،کشمیریوں کی زندگی محفوظ نہیں تو پھر کسی کی بھی زندگی محفوظ نہیں رہے گی، بھارت پاکستان پر حملے سے پہلے یہ ضرور سوچ لے کہ دونوں ممالک ایٹمی قوتیں ہیں جنگ شروع کرنا آسان ہے اسے روکنا ممکن نہیں ہوگا اورایٹمی حملے صرف جنوبی ایشیا کو ہی نہیں اقوام عالم کو بھسم کردیں گے۔پلوامہ واقع پر بھارتی ردعمل نے پاکستانی قوم کو متحد کردیا مگروزیراعظم عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے قبل اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ہاتھ نہ ملانا ہدف تنقید بن گیا۔سیاسی مدبروں کا کہنا ہے کہ عمران خان جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فون کرکے امن کی بات کرنے میں توان کی انا مجروح نہیں ہوتی مگر پارلیمنٹ کے اندر قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ہاتھ ملانے کو معیوب سمجھتے ہیں حالانکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھارتی رویے پر یکطرفہ طورپر بلا مشروط حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کردیا، احتساب اپنی جگہ ،نیب اپنا کام جاری رکھے اور کسی رورعایت کے بغیر کرپشن کرنے والوں کیخلاف کارروائی جاری رکھے مگر قومی پلیٹ فارم پرا تحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقا کو بھی پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اس سے پارلیمنٹ کی اہمیت مسلمہ ہوگی اگر حکومتی زعماء اپوزیشن کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کریں گے تو وہ بھی سلیکٹڈ وزیراعظم کہنے پر مجبورہوجائیں گے،بھارت سے کشیدگی اور عالمی حالات کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم عمران خان غیر متنازعہ ہوکر قومی قیادت کا فرض ادا کریں نوبل انعام کیلئے مہم چلانے کی ضرورت نہیں رہتی اچھا کام تاریخ میں امر ہوجاتا ہے او ر پونے دو صدیوں بعد بھی پاکستان کا وزیراعظم اس نذر مسلمان حکمران کی تقلید کرنے کا اعلان کرتا ہے جس نے شیر کی ایک دن کی زندگی کے فلسفے کوغلامی کی سو سالہ زندگی پر ترجیح دی۔ امریکہ، برطانیہ، روس، ترکی، ایران،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،جاپان، یورپی یونین اور فرانس کی کوششوں کے باوجود دونوں ممالک میں کشیدگی برقرار رہے گی۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی 1948کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینا ہوگا۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین