• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

عمرہ زائرین پر ٹیکس عائد کرنا

سوال:۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ جو پاکستانی دوسال کے اندر دوبارہ عمرے کے لیے جائے گا،اسے دوہزار ریال اضافی اداکرنا ہوں گے۔سعودی حکومت نے یہ ٹیکس عائد کیا ہے اوروہی وصول کرتی ہے۔آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا کسی حکومت کا اس طرح ٹیکس عائد کرنا جائز ہے ؟ (عثمان غوری،کراچی)

جواب:۔ جب سے سعودی حکومت نے یہ قانون عائد کیا ہے،لوگ کثرت سے اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں پوچھتے ہیں اور ہمارے ادارے سے اس کاشرعی جواب دے دیا جاتا ہے۔ آپ کے سوال کے جواب میں بھی میں اپنے ادارے بنوری ٹاؤن سے جاری کردہ ایک فتوے کا متعلقہ حصہ درج کرتا ہوں،جس میں اس قانون کا شرعی پہلو سے جائزہ لیا گیا ہے۔فتوےمیں کچھ عربی عبارتیں بھی ہیں جو اہل علم کے اطمینان وتسلی کی خاطر ہیں۔فتوے کا حاصل یہ ہے کہ جولوگ عمرہ کے لیے جاتے ہیں ،ان سے اضافی دوہزار ریا ل وصول کرنا ناجائز ہے۔ملاحظہ کیجیے:’’

حرمین شریفین تمام دنیا کے مسلمانوں کی عبادت کے لئے مشترکہ مقامات ہیں، حرم کے مستقل باسیوں کا حر م میں جتنا حق ہے، اتنا ہی حق دنیا کے کسی اور جانب سے آنے والے کا بھی ہے، چناںچہ قرآن کریم کی آیت:’’ سَوَاۗءَۨ الْعَاكِفُ فِيْهِ وَالْبَادِ(سورۃ الحج: 25)کے ذیل میں اس کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ اپنے اس حق کی وجہ سے اگر کوئی مسلمان جائز طور پر اس حق سے مستفید ہونا چاہے تو دنیا کے کسی حاکم یا قانون کو اسے روکنے کا حق نہیں ہے، ایسا اس وجہ سے ہےکہ کسی مسلمان کے لئے حرم شریف جانا ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر یا محلے کی مسجدمیں جائے، جس طرح یہاں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کا حق نہیں،اسی طرح حرم جانے والے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا بھی شرعاً جائز نہیں۔جہاں تک دوبارہ عمرہ کرنے والوں پر دو ہزار ریال بطور ٹیکس عائد کرنے کا تعلق ہے تو شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔بذل المجہود میں ہے :

’’انما العشور علی الیہود والنصاری ولیس علی المومنین عشور۔ قال القاری : قال ابن الملک اراد بہ عشر مال التجارۃ لا عشر الصدقات فی غلات اراضیھم۔ قال الخطابی : ولایوخذ من المسلم شئ من ذلک دون عشر الصدقات۔‘‘(۴/۱۵۷)

الترغيب والترھيب للمنذری میں ہے:

’’عَن عقبَة بن عَامر رَضِي اللہ عَنهُ أَنه سمع رَسُول اللہ صلى اللہ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول لَا يدْخل صَاحب مكس الْجنَّة قَالَ يزِيد بن هَارُون يَعْنِي العشار رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن خُزَيْمَة فِي صَحِيحه وَالْحَاكِم كلهم من رِوَايَة مُحَمَّد بن إِسْحَاق وَقَالَ الْحَاكِم صَحِيح على شَرط مُسلم كَذَا قَالَ وَمُسلم إِنَّمَا خرج لمُحَمد بن إِسْحَاق فِي المتابعات قَالَ الْبَغَوِيّ يُرِيدبِصَاحِب المكس الَّذِي يَأْخُذ من التُّجَّار إِذا مروا عَلَيْهِ مكسا باسم الْعشْر قَالَ الْحَافِظ أما الْآن فَإِنَّهُم يَأْخُذُونَ مكسا باسم الْعشْر ومكوسا أخر لَيْسَ لَهَا اسْم بل شَيْء يأخذونه حَرَامًا وسحتا ويأكلونه فِي بطونهم نَارا حجتهم فِيهِ داحضة عِنْد رَبهم وَعَلَيْهِم غضب وَلَهُم عَذَاب شَدِيد۔ ( دار الکتب العلمیۃ)

نيل الاوطار میں ہے:قوله: (وليس على مسلم جزية) لأنها إنما ضربت على أهل الذمة ليكون بها حقن الدماء وحفظ الأموال، والمسلم بإسلامه قد صار محترم الدم والمال قوله: (عشور) هي جمع عشر وهو واحد من عشرة: أيليس عليهم غير الزكاة من الضرائب والمکس و نحوھما۔ (8 / 70، دار الحديث، مصر)

اسلامی قوانین میں ایسے ابواب کو یہاں تک ناجائز رکھا گیا ہے کہ یہود ونصاریٰ جو بیت المقدس کی زیارت کو جاتے ہیں، اس کی وجہ سے ان سے اس طرح کی رقم لینا حرام قراردیاگیا ہے، چناںچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

قال الخير الرملي: أقول: منه يعلم حرمة ما يفعله العمال اليوم من الأخذ على رأس الحربي والذمي خارجا عن الجزية حتى يمكن من زيارة بيت المقدس.

جب سفر بیت المقدس کے سبب سے غیر مسلم سے ٹیکس لینے کی اجازت نہیں تو سفر عمرہ کے سبب سے مسلمان سے کچھ لینے کی اجازت کیسے ہوگی؟قواعد اسلامیہ کا مقتضا تو یہ ہے کہ اگر ایسا ناجائز ٹیکس غیر مسلم حکام مسلمانوں سے وصول کرتے ہوں، تب بھی اپنی حدود میں مسلمان حکمرانوں کو غیرمسلموں سے ایسے ٹیکس وصول کرنا جائز نہیں، اس کی نظیر عشر ہے کہ اگر مال تجارت غیر مسلم تاجر کے پاس نصاب سے کم ہو، اور وہ لوگ اپنی مقامی حکومت میں مسلمان تاجر سے اس مقدار میں عشر لیتے ہوں، تو ہم غیر مسلم تاجر سے نہ لیں گے، اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ یہ ظلم ہے، اور ظلم میں موافقت نہیں کی جاتی۔ 

(…جاری ہے…)

تازہ ترین