وطن عزیز کی معیشت عرصے سے جس کیفیت کی شکار ہے، اس میں سیاسی عزم کے ساتھ ایک طویل المیعاد پروگرام یا ایسے میثاق پر اتفاق رائے کی ضرورت بار بار سامنے آتی رہی جس میںمعاشی سمت کی ترجیحات، مرحلے اور منازل اس طرح واضح ہوں کہ حکومتوں کی تبدیلی معیشت کے طے شدہ رخ اور رفتار میں مانع نہ ہوسکے جبکہ معاشی کارکردگی کے نتائج میں بہتری کے لئے تمام حلقے تعاون کریں۔ ماضی میں اس نوع کی کئی تجاویز سامنے آتی بھی رہیں لیکن اشرافیہ کے سب کچھ سمیٹ لینے کے اندازِ کار اور کرپشن میں اضافے کی رفتار کودیکھتے ہوئے واقفانِ حال معاشی نظم و نسق بہتر بنانےکے دعوئوں یا کسی معاشی میثاق کی طرف بڑھنے کی تجاویز کے عملی حقیقت بننے کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیںرہے۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی میں ضمنی فنانس (دوسرے ترمیمی) بل 2019ء کی منظوری سے قبل موجودہ و سابقہ حکومتوں کے اعدادوشمار اور مالی کارکردگی کے حوالے سے جو مختلف و متضاد دعوے سامنے آئے، ان کے درمیان سیاسی میثاقِ معیشت کی بات بھی آگئی اور وزیر خزانہ اسد عمر نے واضح لفظوں میں کہا کہ وہ سیاسی میثاق معیشت کا خیرمقدم کرتےہیں۔ موجودہ حکومت معیشت کے بہائو کا رخ امیروں سے غریبوں کی طرف کرنے کی دعویدار ہے اور ضمنی فنانس بل میں گرین صنعتوں کی حوصلہ افزائی، خصوصی اقتصادی زونز میں اضافی سہولیات ، زرعی شعبے ، کم لاگت ہائوسنگ اسکیم ،چھوٹی و درمیانہ درجے کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کیلئے قرضوں سمیت ریلیف اقدامات اس کی سمت واضح بھی کررہےہیں۔ اخباری کاغذ پر عائد پانچ فیصد کسٹم ڈیوٹی ختم ہونے سے ا س صنعت سے وابستہ افراد کی مشکلات میں کسی قدر کمی کی صورت سامنے تو آئی ہے مگر میڈیا سمیت بعض میدانوں میں ایسے مزید اقدامات کی ضرورت بہرطور نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے جن سے کارکنوں کے روزگار کو تحفظ دینے، مزید روزگار پیدا کرنے اور موجودہ نظام پر ان کا اعتماد مستحکم تر کرنے میں مدد مل سکے۔ اب جبکہ میثاقِ معیشت کی بات ایک بار پھر قومی اسمبلی میں کی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ تجویز سیاسی بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ اس باب میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطےہوں، آل پارٹیز کانفرنس سمیت مکالمے اور اتفاق رائے کی ایسی صورتیں نکالی جائیں جن میں ماہرین کی آرا سے پوری طرح استفادہ شامل ہو ، چین اور دیگر دوست ملکوںکے اقدامات و تدابیرکو سامنے رکھا جائے اور کم از کم پندرہ بیس برسوں کیلئے تمام حلقے مل کر معیشت کو ایسے رخ پر لے جانے کیلئے مستعد ہو جائیں جس میںملکی معیشت ترقی و خوشحالی کی منزلیں سر کرتی نظر آئے۔ معیشت کے استحکام کے پیمانوں میں مواقع روزگار اور عام لوگوں کیلئے بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی طرح اشیائے پیداوار و اشیائے صرف کے نرخوں کی کیفیت بھی شامل ہے۔ نرخوں کا عدم استحکام ایک طرف قومی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے تو دوسری جانب عام آدمی کے مسائل میں اضافے کاسبب بھی بنتا ہے۔ اس منظرنامے میں یہ بات سراہے جانے کے قابل ہے کہ بدھ کےروز وزیراعظم عمران خان نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی پہلی ٹیرف پالیسی کی اصولی منظور دی جس کا مقصد نرخوں کو شفاف و قابلِ تخمینہ رکھنا اور ملک بھر کے ٹیرف ڈھانچے کو ادارہ جاتی حیثیت دینا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی و جامع مشاورت کے بعد تیار کی گئی اس پالیسی کے ذریعے خام مال تک رسائی ممکن بنانے، سرمایہ کاری راغب کرنے اور روزگار بڑھانے کے علاوہ تجارتی مسابقت کی صلاحیت بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ قومی اسمبلی کی پرائیویٹائزیشن کمیٹی کے پانچ برسوں میں 49اداروں کی نجکاری کے فیصلے کی ترجیحات اور ٹائم فریم کے حوالے سے بھی اگرچہ کئی امکانات کی طرف اشارے دیئے جارہے ہیں مگر اس ضرورت کو بہرطور نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ متفقہ سیاسی عزم کے ساتھ میثاقِ معیشت کی طرف بڑھنا درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا اہم تقاضا ہے۔