• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 22فروری کی شام تھی جب مجھ پر نمونیہ کا شدید حملہ ہوا اَور مجھے فوری طور پر اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ شدید علالت کے باعث مجھ سے دو کالموں کا ناغہ ہوا، اِس دوران ایسے حیرت انگیز اور عجیب و غریب واقعات رونما ہوئے کہ دیکھنے والے دم بخود رہ گئے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ہونے والی دہشت گردی پر ایک طوفان اُٹھا رکھا تھا اور کسی ثبوت کے بغیر سارا اِلزام پاکستان پر دھر دیا تھا۔ وزیرِاعظم مودی کا مقصد عالمی رائے عامہ ہموار کر کے پاکستان پر چڑھ دوڑنا تھا جبکہ وزیرِاعظم عمران خان نے واقعے کی تحقیقات کرانے اور مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کی پیشکش کی اور انتہائی مدبرانہ رویہ اختیار کیا، مگر یوں لگا جیسے وہ بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں۔ دریں اثنا بی جے پی کے ایک سابق عہدیدار نے ایک آڈیو کال وائرل کر دی جو پلوامہ دہشت گردی کی پوری کہانی بیان کرتی تھی۔ اِس آڈیو کال میں تین اشخاص آپس میں باتیں کرتے سنے گئے جن میں دو مرد تھے اور ایک خاتون۔ ایک طرف سے تجویز آئی کہ بھارتی فوجیوں پر حملے کا انتظام کیا جائے تاکہ پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی جا سکے۔ منصوبہ ساز خاتون نے 10فروری تک مطلوبہ رقم بھیجنے کا مطالبہ کیا اور یقین دلایا کہ خودکش حملے کا مناسب انتظام کر لیا جائے گا۔

طےشدہ منصوبے کے مطابق 14فروری کو بھارتی فوجی کانوائے پر حملے میں چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے جیشِ محمد کو موردِ الزام ٹھہرایا اور پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ فروری2019 میں ستمبر2016 کے مقابلے میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا تھا، جس کے ذمہ دار وہ ہولناک مظالم تھے جو نہتے کشمیریوں پر ڈھائے اور پیلٹ گن کے ذریعے بچے بینائی سے محروم کیے جا رہے تھے۔ بدنصیبی سے خواتین کا دامنِ عصمت وحشیانہ طریقوں سے تارتار کیا جا رہا تھا۔ غیر جانبدارانہ تجزیہ کار مسلسل اِس حقیقت کی نشاندہی کر رہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے اسّی فی صد عوام بھارت سے کٹ چکے ہیں۔ بھارتی دانشور اور نڈر خاتون ارون دھتی رائے چند سال پہلے اپنی تحریروں میں لکھ چکی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ عالمی برادری کو اِس انسانی المیے سے آنکھیں چرانے کے بجائے انسانی تہذیب اور علاقائی اور عالمی امن کے تحفظ کی خاطر زبردست کردار ادا کرنا ہو گا۔

نریندر مودی جن کو ہوسِ اقتدار نے اندھا کر رکھا ہے، اُنہوں نے سوچا کہ اِس بار پاکستان کے اندر گھس کر ایک بڑا آپریشن کیا جائے جو اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا، چنانچہ 26فروری کو رات تین بجے انڈین ایئر فورس کے فرانسیسی ساختہ 12میراج 2000طیارے مظفرآباد کی طرف سے داخل ہوئے اور بالاکوٹ کے قریب جا پہنچے۔ یہ فورتھ جنریشن کے جیٹ فائٹرز تھے جن میں اسرائیلی ساخت کے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل نصب کیے گئے تھے۔ پاکستان ایئر فورس کے طیاروں نے اُنہیں جا لیا۔ اِس پر بھارتی جنگی طیارے پہاڑوں پر بم گرا کر نو دو گیارہ ہو گئے۔ اُن کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہاں جیشِ محمد کے ایک تربیتی کیمپ میں ساڑھے تین سو دہشت گرد تھے جو سب کے سب موت کے گھاٹ اُتار دئیے گئے ہیں۔ جابہ جہاں بھارتی جنگی جہازوں نے بم گرائے تھے، وہاں ہمارے نڈر اور صاحبِ بصیرت صحافی جناب حامد میر پہنچ گئے۔ اُنہوں نے خبر دی کہ وہاں اُنہیں ایک عدد کوے کی لاش ملی ہے اور ایک زخمی شہری جس کے مکان کو نقصان پہنچا ہے۔ معروف عالمی اداروں نے بھی بھارت کے جھوٹ کا پول کھول دیا ہے اور تصویریں وائرل کی ہیں۔

وزیرِاعظم عمران خان چند روز پہلے قوم سے خطاب میں یہ کہہ چکے تھے کہ وہ آخری وقت تک اپنے خطے کو ایٹمی جنگ کی تباہیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سرتوڑ کوشش کریں گے، لیکن اگر ہماری سرحدوں کو تاراج کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم اِس کا یقینی طور پر جواب دیں گے، تاہم پاکستان کے لیے یہ صورتِ حال حددرجہ تکلیف دہ تھی کہ امریکی سیکورٹی ایڈوائزر نے بھارت کا حقِ دفاع تسلیم کیا اور ترکی کے سوا کسی اور ملک نے بھارت کی دراندازی پر احتجاج نہیں کیا۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے بیانات بھی اِسی کی ہم نوائی میں تھے۔ اُن کے اہم کمانڈروں اور آرمی چیفس سے پاکستانی سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقاتیں کر کے صورتِ حال کو بڑی حد تک سنبھالا۔ پھر ایک تاریخ ساز لمحہ طلوع ہوا جس میں ایمانی طاقت سے سرشار ایک جرأت مند اقدام نے پورا عالمی منظرنامہ یکسر تبدیل کر دیا۔ 27فروری کو دن کے اُجالے میں دو بھارتی طیارے پاکستان کی سرحد کی طرف بڑھے، تو پاکستان کے جے ایف تھنڈر طیارے کے اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی اور نعمان علی خان نے ڈاگ فائیٹ میں دو طیارے مار گرائے۔ ایک کا ملبہ مقبوضہ کشمیر میں گرا جبکہ دوسرے کا پاکستان میں۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن گرفتار کر لیے گئے۔ اِس عظیم الشان کارکردگی پر عالمی طاقتوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ دنیا پر پاکستان کی مسلح افواج کی ہیبت بیٹھ گئی اور بھارت کی فوجی طاقت کا دیوہیکل انفرااسٹرکچر زمین پر آن گرا۔ ہماری بہادر فضائیہ جس نے 1965کی جنگ میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا، اِس بار بھی اس کی اعلیٰ کارکردگی نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ہم اپنے سپہ سالار، اپنی فضائیہ، اپنی بحریہ، اپنی بری فوج اور اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے دشمن کو فوجی محاذ پر چت کر دیا ہے جبکہ وزیرِاعظم عمران خان نے بھارتی پائلٹ کو رہا کر کے اخلاقی برتری حاصل کر لی اور پاکستان کا امیج ایک ذمہ دار اور امن پسند قوم کی حیثیت سے سربلند ہوا۔

ہمیں اپنی اِن عظیم الشان کامیابیوں کو مستحکم کرنے اور وسعت دینے کے لیے قومی طاقت کے بنیادی عناصر میں گہرا ربط پیدا کرنا ہو گا۔ سول ملٹری قیادتوں کی یکسوئی، سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد و یگانگت، پارلیمنٹ کا زبردست کردار اور معیشت کا استحکام وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر بہت فعال ہونا ہو گا۔ ہم اس وقت ایک ہیجانی کیفیت میں اپنے بعض سیاسی قائدین اور تنظیموں کے خلاف وہی کچھ کر رہے ہیں جس کا مطالبہ بھارت بڑی شدت سے کر رہا ہے۔ احتیاط، بالغ نظری اور توازن سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سیکورٹی کونسل کے اشتراک سے مسئلۂ کشمیر کا منصفانہ حل تلاش کرنا اور اپنے کلیدی دوستوں سے مراسم گہرے کرنا ہوں گے۔ جمہوری روایات کو فروغ دینا اور سنجیدگی اور سمجھ داری سے بھارتی چالبازیوں سے محفوظ رہنا ہو گا۔

تازہ ترین