• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منٹو صاحب! آپ نے نئے پاکستان کا نقشہ منگو کوچوان کے ذریعہ کھینچا تھا۔ اس نے ہنٹر لے کر گورے صاحب کو پیٹا تھا۔ وہ منگو کوچوان ابھی زندہ ہے، اس نے انڈین پائلٹ ابھی نندن کو بھی گورے صاحب کی طرح سبق سکھانے کا ارادہ کیا تھا۔ وہ تو ہماری روایتی مہمان نوازی نے اسے بچا لیا، مگر منٹو صاحب! آج آپ ہوتے تو کشمیری نوجوان بچے بچیوں کے جذبے کو دیکھ کر، آپ کو بھی میری طرح یاد آجاتا کہ جب 17اگست1947کو ریڈکلف، دونوں ملکوں کی سرحدوں کا تعین کررہا تھا، تو اس نے لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیگم کی سفارش پر گورداسپور اور فیروزپور، دونوں کو انڈیا کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ منٹو صاحب! آپ نے چاچا سام کے نام خطوط میں بھی اس زیادتی کا حوالہ دیا تھا، آپ نے اغوا ہونے والی ساری عورتوں کا نوحہ لکھا تھا، آج آپ موجود ہوتے تو پوچھتے اشوک باجپائی سے کہ تم تو ہمیشہ امن اور محبت کی نظمیں لکھتے رہے۔ یہ آج کی نسل کو کیوں نہیں سناتے کہ دوسری جنگ عظیم کے داغ اب تک، جاپانیوں کی تیسری نسل کو نہ صرف یاد ہیں، بلکہ ہر سال 5اگست کو وہ سائرن بجا کر یاد کراتے ہیں، کہ اپنی نسل کو محبت اور امن کی کہانیاں سنائو تاکہ جوہری اور جنگی ہتھیار بنانے والے اپنی مارکیٹ بڑھانے کے لئے چھوٹے ملکوں کو اس کا ایندھن نہ بنائیں۔

امرتا پریتم جی! آپ نے تو خون کی ندیاں بہنے پہ وارث شاہ کو آواز دی۔ آپ ساری زندگی لاہور کو یاد کرتی رہیں۔ پاکستان سے آنے والے سارے ادیبوں کو دیکھ کر نہال ہو جاتی تھیں۔ احمد راہی سے لے کر سجاد حیدر تک، سب کا حال پوچھتی تھیں۔ آج اگر آپ دیکھتیں کہ گائے کے گوشت کے شک کے باعث، غریب مسلمانوں کی بیچ چوراہوں میں کھال ادھیڑی جا رہی ہے۔ جنگ کے خلاف بولنے والے پروفیسروں تک کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ آپ خود ہی باپو اور پنڈت نہرو سے پوچھتیں کہ آپ لوگ تو اہنسا کی بات کرتے تھے، باپو تو مسلمانوں کے قتل کے خلاف مرن بھرت رکھ کے بیٹھے تھے، اسی لئے وہ قتل کر دیئے گئے تھے۔ اب فلموں میں باپو کی باتیں یاد کرتے ہوئے بھی، باپو کے ساتھ مولانا آزاد تک کو یاد کیا جاتا ہے۔ آج کے سیاست دان تو شاید مولانا آزاد کا نام بھی سننا پسند نہ کریں۔ امرتا پریتم جی رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبیل ادبی انعام ان کی محبت اور امن کی شاعری کے باعث دیا گیا تھا، آج تک بہت سے مختلف ممالک کے ادیبوں کو انعام، ان کی دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی بربریت کے حوالے سے لکھے ناولوں اور تحریروں پر دیا جاتا ہے۔ جنگی جنون میں تو لوگ بھول رہے ہیں کہ کس طرح لاکھوں لوگ آسام اور کشمیر میں مارے گئے، لاپتہ ہوئے۔ کسی بھی خاندان کو ایسے زخم کبھی نہیں بھولتے ہیں۔

میری ادب دوست ارون دھتی رائے! تمام خوف اور ہراسانی کے باوجود، حرف حق لکھ رہی ہے۔ سچ بول رہی ہے اور سیاست دانوں کے فریبی کھوکھلے نعروں کا پردہ چاک کر رہی ہے۔ اس وقت تو 81نوبیل انعام یافتہ ادیبوں نے ہماری ملالہ یوسف زئی کے کہنے پر ایک مشترکہ اپیل دائر کی ہے کہ جنگ کی باتیں انسانیت کے خلاف ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے بچوں نے بھی امن کی کوششوں کو سراہا ہے۔ پاکستان میں بچہ بچہ، گزشتہ دس سال سے خاص کر کشمیر اور آسام میں فوجی سرگرمیوں کی مخالفت کر رہا ہے۔ لوگوں کو پیلٹ سے اندھے ہوئے، گولیوں سے اپاہج ہوئے اور ستر ہزار مارے گئے جوان نظر نہیں آتے ہیں۔ ارون دھتی ڈیئر! تم کیا دنیا بھر کے ٹی وی سینٹروں تک اپنی آواز نہ پہنچا سکو گی کہ انڈین میڈیا تو شرمناک لفظوں کا انبار روز لگا رہا ہے۔

جسٹس کاٹجو جی! آپ تو گزشتہ 20برس سے اُردو کو دوسری قومی زبان بنانے کی جدو جہد کر رہے ہیں، انڈین لوگوں کو بار بار سکھاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے کہا تھا ’’مذہب نہیں سکھاتا، آپس میں بیر رکھنا‘‘ آپ بار بار کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے مل کر جلیانوالہ باغ میں انگریزوں کی گولیاں کھائی تھیں۔ ہم نے مل کر انگریزوں کے خلاف ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلائی تھی۔ آپ یہ بھی یاد کراتے ہیں کہ چاہے 65کی جنگ ہو کہ 71کی جنگ کہ کارگل کی جنگ۔ دونوں ملکوں نے بڑی طاقتوں کے کہنے پر جنگ ختم کر کے، کوئی سبق ہی نہیں سیکھا۔ جسٹس کاٹجو جی میری آپ سے ہر سال غالب انسٹیٹیوٹ میں ملاقات ہوتی رہی۔ آپ رنجیت سنگھ کے جشن ادب میں بھی خاص طور پر شریک ہوتے رہے۔ آپ خوشنونت سنگھ جی کی کتاب Train to Pakistanکے حوالے سے لوگوں کو یاد کراتے رہتے تھے کہ باہمی دوستی ہی ہمارے دونوں ملکوں کی غربت اور جہالت کو کم کر سکتی ہے۔ باہمی دوستی اور نصاب میں تبدیلی کہ ہم نے مل کر انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی لڑی تھی۔ آج انڈیا میں تقسیم کے زخموں کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابیں خوب شائع ہو رہی ہیں اور فروخت بھی ہو رہی ہیں۔ میری دوست ایشوری بٹالیہ ایسی تحریریں، دونوں ملکوں میں سفر کر کے، ریکارڈ کر رہی ہے۔ بھلا کیوں، وہ بتانا چاہتی ہے کہ جنگ کی صورت میں یہ دونوں قومیں وحشی اور خونخوار ہو جاتی ہیں۔ یتیم بچوں اور بیوائوں کو بھول جاتی ہیں۔ کاٹجو جی! آپ ہی کچھ اور بولیں۔

تازہ ترین