• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گلا دبایا جا سکتا ہے،آوازیں نہیں۔ جو سماج اور معاشرہ دھاندلی ، جبر ، دھونس اور بے انصافی پر آواز نہیں اٹھاتا وہ نہ تو مہذب ہے اور نہ ہی معزز کہلا سکتا ہے ۔ ”معززین علاقہ“ کی بات اور ہے۔ میں نئی نسل پر بہت خوش ہوں خواہ وہ پاکستان کی ہو، عربستان کی یا ہندوستان کی۔ کیوں؟ یہی آج کاوکالت نامہ ہے۔
سیکولر بھارت میں ہر 20منٹ کے بعد رادھا کی ایک بیٹی بے آبرو کر دی جاتی ہے۔ تقریباً پو نے دو سو کروڑ لوگوں کے ملک میں جہاں بھاری اکثریت میں ہندو مذہب کے ماننے والے بستے ہیں ہر گھنٹے میں تین بچیوں کو درندگی نو چ ڈالتی ہے، ایک دن میں 72خواتین چیر پھاڑ دی جاتی ہیں، ایک ہفتے میں پانچ سو چار عورتیں بے توقیر ہو رہی ہیں اور ایک مہینے میں دو ہزار ایک سو ساٹھ صاحبِ حُرمت بے حُرمت کر دی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے عورتوں کیلئے ہندوستان 2012ء میں قیامت کا سال تھا کیونکہ صنفِ نازک کے خلاف سالانہ تقریباً پچیس ہزار نو سو بیس بے رحمانہ وارداتوں نے بھارت کے سماج کا چہرہ بگاڑا۔ اس سیاہی کو دھونے کیلئے نئی دہلی میں شعبہ طب کی ایک طالبہ کے خلاف ایک ایسے ہی بے شرمانہ وقوعے کے نتیجے نے ہندوستان کی یوتھ کو سڑک پر آنے پر مجبور کر دیا ۔ نہ کوئی مرکزی لیڈر ، نہ سادھو نہ سَنت، نہ شیخ نہ براہمن نہ سردارنہ رہنما، یوتھ نے اپنا وجود پھر بھی منوایا۔2012ء کے سال ِ گزشتہ کے دوران بھارت میں عوامی سطح کی یہ دوسری بڑی ”خود رو“ تحریک ہے۔ اس سے پہلے کرپشن کے ایک قانون کے حوالے سے اَنا ہزارے نے عوامی بیداری کی بے مثال لہر برپا کی تھی۔
کراچی کے اُن لڑکے لڑکیوں کو سلام پیش نہ کرنا اخلاقی بخیلی اور علمی کنجوسی ہو گی جنہوں نے شاہ زیب قتل کیس پر بہت سے سوئے ہوئے ضمیر جھنجھوڑ ڈالے ۔تاج و تخت کے مالکان ، وارثان اور مسلسل امیدواران سوئے رہے مگر لاہور کی یوتھ نے کراچی سے ہم آواز ہو کر پاکستان میں ماورائے عدالت ہلاکتوں ، ٹارگٹ کلنگ اور خونِ آدم کی ارزانی کے خلاف موثر احتجاج کر کے ثابت کیا کہ ایشیاء کے جوانوں میں بیداری کی لہر ہے اور یہ صلاحیت بھی کہ وہ معززین ِ علاقہ کی طرح مسیحا کا انتظار نہیں کرتے بلکہ مسیحائی کرتے ہیں۔ ظلم ، بربریت ، ہلاکت خیزی اور قہر و غضب کے مراکز اور اس کی علامتوں کے خلاف بلند ہونے والی یہ نئی آوازیں پاکستانی سماج کی زندگی کا ثبوت ہیں۔
مو جو دہ ملکی حالات میں کچھ اور آوازیں بھی قابل توجہ ہیں۔ اُن میں پہلی آواز وہ ہے جس میں مسلم لیگ ق ، ایم کیو ایم کے علاوہ بھی کچھ لوگ شامل ہیں جنہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی استعدادِ کار پر اعتراضات ہیں اور غیر جانبداری پر بھی۔ میں فی الحال اس حد تک ان آوازوں سے اتفاق کرتا ہوں اور ایک ذاتی تجربہ آپ سے شئیر کرتا ہوں ۔جب میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس نواز عباسی اور جسٹس امجد شیخ پر مشتمل احتساب عدالت میں آصف زرداری کا وکیل تھاتو جسٹس شیخ امجد کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ریاض کیانی جو میرے محترم ہیں اچھے جج اور میرے ساتھ وزارت قانون میں سیکر یٹری لاء بھی رہے ان کے اوپر آصف زرداری کی طرف سے اعتراض اٹھایا کہ وہ اس بنچ میں بیٹھنے کے لئے پنڈی آنے سے پہلے گزشتہ رات رائے ونڈ میں میاں شریف صاحب سے ملے ہیں اور سا تھ اس خبر پر مشتمل اخباری تراشا بھی انہیں پیش کیا تو انہوں نے بھری عدالت میں کھلے دل سے تسلیم کیا کہ اس خاندان کے ساتھ ان کے انتہائی قریبی گھریلو تعلقات ہیں ۔اس لئے ارسلان افتخارکیس کی روشنی میں الیکشن کمیشن پر اٹھنے والے اعتراضات کو انتہائی سنجیدگی سے لے کر ایسے ممبران جن پر اعتراضات ہوں وہ یا تواستعفیٰ دے کر اعتراضات کا جواب دیں یا ان کے بین الصوبائی تبادلے کر کے کام چلایا جائے ورنہ الیکشن کا عمل جو پہلے ہی متنازع ہوتا جا رہا ہے، نا قابل قبول ہوجائے گا ۔ معتبر صحافی اور معروف تبصرہ کار شاہین صہبائی نے بھی چند پُرمغز سوالات اٹھائے ہیں جبکہ برادرم انصار عباسی الیکشن کمیشن کو خواب خرگوش سے جگانے کی مسلسل سعی کر رہے ہیں۔پاکستان کے اندر نئی آوازوں میں موثر ترین آواز PPPکے چئیرمین بلاول کی ہے۔ میں بلاول کو اتنا ہی جانتا ہوں جتنا اپنے بیٹے عبداللہ کو۔گزشتہ تین انتخابات کی الیکشن مہموں میں محترمہ کے ساتھ گزرے وقت میں بی بی بلاول پر کس قدر توجہ دیتی تھیں میرے لئے یہ بات راز نہیں۔ چیئرمین بلاول کی اسکولنگ کے وقت وہ جس صوفے پر بیٹھی گفتگو کرتی تھیں ساتھ کُشن پر بلاول ان سے ٹیوشن پڑھتا تھا۔ وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتا، جس روز جسٹس قیوم ملک اور جسٹس نجم الحسن کاظمی پر مشتمل عدالت سے شہید محترمہ کے وکیل کی حیثیت سے انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت لے کر دی اور خود لکھ کر عدالت کو دیا کہ اُن کی جگہ میں پیش ہی نہیں ہوں گابلکہ بطور ملزم اپنا بیان بھی قلم بند کراوٴں گا۔ جس کے نتیجے میں محترمہ بچوں کو چھوڑنے کراچی ایئرپورٹ جا رہی تھیں مجھے انہوں نے اسلام آباد سے بلوایا ۔اس دن بی بی نے غیر معمولی طور پر بڑا سیاہ چشمہ پہن رکھا تھا جیسے وہ ملک سے باہر جانے والے معصوم بچوں سے اپنی کیفیت چھپانا چاہتی ہوں۔ وقت الوداع بچوں سے کہا ”اپنی ماما کا خیال رکھنا، تم ملک سے باہر اکٹھے ہو گے اور تمہاری ماما اکیلی“۔
گئی توُ ایک ، مگر یوں، کہ کر گئیں تنہا
تمہارے ساتھ گئیں ، خوبیاں مقدر کی
بلاول کی27دسمبر والی تقریب کے دوران جن لوگوں نے ان کے اندر شہید بی بی کا عکس و انداز دیکھا تھا وہ بالکل درست تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید قائد عوام یا ان کی بیٹی کے خلاف بغض رکھنے والے اس تقریر کے بعد ایک بار پھر بھڑک اٹھے ہیں۔ یہ مخالف کیمپ میں ہوں یا انہیں اپنی چارپائی تلے سے ڈانگ پھیر کر نکالا جائے یہ ہر ایسے موقع پر جہاں شہید بھٹو کا ذکرآئے اکٹھے ہو کر وار کرتے ہیں۔ مجھے دو سال پہلے اس کا شدید ترین تجربہ تب ہوا جس دن میں نے بھٹو ریفرنس میں وکیل بننے کے لئے وزارتوں کے قلمدان چھوڑ ے۔ سیاست میں بلاول کی آمد نے انہیں پھر مشتعل، پریشان اور شرمندہ کر دیا ہے۔ چنانچہ اس دو منہ والے سانپ کی پھنکار تین سوالوں کے گرد گھومتی ہے ۔ پہلا یہ کہ چیئرمین بلاول نے اپنی والدہ کے خون آلود مقدمے کا پانچ سال تک فیصلہ نہ ہو نے پر احتجاج کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ محض شہید بی بی کی سیاسی وراثت کا امین نہیں، لہو کا بھی شرعی طور پر وارث ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ اس کی تقریر ولولہ انگیز یعنی Aggressiveکیوں تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولولہ اس کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ پی پی پی کا جیالا ولولے پر تو زندہ ہے ورنہ اقتدار کے زمانے میں اکثر ڈکٹیٹروں کے درباری کاریگر مسند پر بیٹھتے ہیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھ لیں شہرِ اقتدار میں قربانیاں جیالوں کی اور موجیں دلالوں کی نظر آتی ہیں۔ تیسرا اعتراض یہ کہ بلاول کی اردو زوردار نہیں تھی۔ یہ حسن اتفاق تو قائد اعظم اور قائد عوام کے ساتھ بھی ایسے ہی تھا۔ اللہ نے چاہا تو بلاول پانچ عشروں کی سیاسی اننگز کھیلے گا۔ اس لئے اس کا اصل مسئلہ ان لوگوں تک بھرپور انداز میں پی پی پی کا سوشلسٹ ، عوامی اور اسلامی مساوات پر مشتمل وفاقی و جمہوری ایجنڈا پہنچانا ہے جن کے ہاں گھی کے چراغ نہیں جلتے بلکہ اکثر چولہا ٹھنڈا رہتا ہے۔ بلاول کا دوسرا امتحان پی پی پی کی اصل قوت یعنی مزدور کو واپس لانا ہے اور اس ہاری کو پھر جگانا ہے جس نے مہران سے ”سیٹھ کا نہ پیر کا، ووٹ بے نظیر کا“ والا نعرہ ایجاد کیا تھا۔ چیئرمین کا تیسرا امتحان پی پی پی کو اپنے فاوٴنڈنگ ڈاکیومنٹ کی طرف لوٹانا ہے اور سب سے بڑا امتحان یہ کہ انتخابی فہرستوں سے دو کروڑ ووٹ کٹنے کے بعد تین کروڑ یوتھ کے نئے درج شدہ ووٹروں کو اپیل کرنا ہے۔ یہی ووٹ 2013ء کے الیکشن کا گیم چینجر ہیں۔ ان میں سے اکثر ووٹ ،لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور زبان ِ حال سے کہہ رہے ہیں :
ہے اب تک پابجولاں خطہٴ پاک
پڑی آزادیوں کے سر پہ ہے خاک
ستارہ اوج پر ہے ، رہزنوں کا
نہیں پرساں کوئی ، خستہ تنوں کا
نئی آوازیں اور نئے لوگوں کی آمد خوش کن مگر جو پیٹ سے سوچتے ہیں اور جن کے پیٹ کلو میٹروں پر پھیل چکے ہیں وہ آج کل سہمے ہوئے بلکہ اکھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نئے زمانے میں مزید نئی آوازیں سامنے آنی چاہئیں ۔ یہی ہمارے کل کی شناخت ہو گی۔ ارتعاش زندگی کی علامت ہے جس ECGپر سیدھی لائن آجائے ڈاکٹر اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنا دیتا ہے …!
تازہ ترین