• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا جس برق رفتاری سے مصنوعی ذہانت کی طرف بڑھ رہی ہے، وہ وقت دور نہیں جب آپ کو بریکنگ نیوز روبوٹ اینکرز سنایا کریں گے۔ اس ضمن میں ہمارے دوست ملک عوامی جمہوریہ چین نے ایک اہم پیشرفت کرتے ہوئے دنیا کا پہلا مصنوعی ذہانت سے چلنے والا روبوٹ نیوز اینکر متعارف کروایا ہے۔ اس سے خبریں سن کر آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ٹی وی اسکرین پر مشینی انسان مخاطب ہے۔ چین کے سرکاری نیوز چینل ’’ژن ہوا‘‘ (Xinhua) نے اپنے نیوز روم میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والا نیوز اینکرمتعارف کروایا ہے، جو تمام دن کی خبریں دنیا بھر سے آپ کو سناتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا۔ ریڈ ٹائی اور سوٹ پہنا روبوٹ اینکر خبریں سناتے ہوئے اپنے چہرے اور سر کو عین اسی طرح جنبش دیتا ہے، جیسے دیگر اینکر کرتے ہیں۔ چین میں صحافتی برادری کی جانب سے اس پر شدید اعتراضات اٹھائے گئے ہیں کہ اگر روبوٹس کی بالا دستی قائم ہو گئی تو صحافیوں کی نوکریاں خطرے میں پڑجائیں گی۔

ژنگ ژائو ڈیجٹیل نیوز اینکر

ژنگ ژائو (zhangzhao) نامی ڈیجیٹل نیوز اینکر کو اپنے حقیقی ساتھی کی ہو بہو صورت اور نام کے ساتھ متعارف کروایا گیا ہے، جس کی شباہت اور اثرات کو دیکھ کر اصل اور نقل میں ذرابھی فرق نظر نہیں آئے گا۔ یہ نیوز اینکر انسانی آواز اور تاثرات کی ہو بہو نقل کرتا ہے، تاہم اسے چینی میڈیا انڈسٹری نے اپنے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ گزشتہ برس چین کی سالانہ ورلڈ انٹرنیٹ کانفرنس کے دوران اس نیوز اینکر کے ان الفاظ نے سب کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا،’’ میں آپ کو صرف24گھنٹے نہیںبلکہ سال کے 365دن مسلسل دنیا بھر کی خبریں سناتا رہوں گا۔ آپ شاید تھک جائیں لیکن میری لغت میں تھکن جیسا کوئی لفظ نہیں‘‘۔ ژنگ ژاؤ چینی اور انگریزی میں خبریں پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے امریکا اور یورپ کو یہ تشویش لاحق ہے کہ چین ڈیجیٹل پولیس اسٹیٹ بن گیا ہے،جہاں لاکھوں کے ہجوم میں کسی بھی فرد کا چہرہ پہچاننا آسان ہو گیا ہے۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی کے ہوانگ کننگ اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’ہم دنیا کو محفوظ سائبر ورلڈ بنا رہے ہیں، جہاں کوئی بھی مجرم نظر سے نہیں بچ سکے گا‘‘۔ ریسرچ فرم گارٹنر نے مصنوعی ذہانت کے بڑھنے سے2020ء تک ملازمتوں میں کمی اور بیروزگاری کی پیش بینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے اثرات نے اخبارات و جرائد کی کاغذی شکل کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ سوشل میڈیا بالخصوص یو ٹیوب اور نیٹ فلکس نے ٹی وی اور فلم انڈسٹری کی مقبولیت بھی گہنا دی ہے۔ ایسے میں روبوٹ اینکر کے آنے سے یہ شعبہ بھی بے روزگاری میں مبتلا ہو گا۔ آنے والے دنوں میں صرف ان ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئرز کی ضرورت ہو گی، جو مصنوعی ذہانت سے ایپس اور روبو ٹس کو حقیقی صورت دیں۔

روبوٹ اینکر،خود کار مستقبل

روبوٹس یا مشینی انسانوں کےنام اور کام ہم سائنس فکشن موویز میں دیکھا کرتے تھے لیکن اب وہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ ہر چیز خودکار (Automatic) ہو گئی ہے۔ آٹو میٹک اسمبلنگ سے شروع ہونے والا یہ سفر اب روبوٹ اینکر، اداکار، خانساماں وغیرہ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ڈرونز، خود کار گاڑیوں اور طیاروں نے انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور الگورتھم ماڈل پر چلنے والے ان خود کار روبوٹس کی بڑھتی اثر پذیری نے کام کے روایتی انداز کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے کام کی رفتار کو بڑھانے پر مجبور کردیا ہے۔ ملٹی ٹیلنٹڈ افرادی قوت کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ قدیم مصریوں نےہمیں پیپر سے متعارف کروایا اور ہم نے پیپر بنا کر قلم کو کورے کاغذ پر چلانے کی ٹھانی۔ مستقبل میں یہ ہماری خبریں ڈیجیٹل نیوز اینکرز پڑھا کریں گے۔

تخلیق کار عظیم تر رہے گا

بہت آسان ہے کہ دنیا بھر کی دانش کو کسی مصنوعی ذہن میں ڈال دیا جائے لیکن اس مشینی آلے کے موجد و تخلیق کار تو انسان ہی ہیں۔ ایک انسان کا ذہن جس دائرے پر سوچتا ہے، اسی دائرے پر ہی مشینی ذہن کام کرے گا۔ موجد کی تخلیق منفرد تو ہو سکتی ہے لیکن اس دنیائے رنگ و بو کے تمام احساسات کو سمیٹ نہیں سکتی۔ امکانات کی کوانٹم دنیا سے ہم نے ناممکن کو ممکن کرنے والے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں لیکن خود کار دنیا کی جس سائبر اور روبوٹک وار کی جانب ہم بڑھ رہے ہیں، وہ انسان کے تخیل اور احساس کو کچل رہی ہے۔ روبوٹ اینکر ہمارے سہولت کار تو بن سکتے ہیں لیکن ہمارے احساسِ مروت کو کچل نہیں سکتے۔جیسے مخلوق خالق کے تخیل کو پا نہیں سکتی اسی طرح ایجاد موجد سےبرتر نہیں ہوسکتی۔

تازہ ترین