• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
26 دسمبر کو CSIS جو امریکی بیرونی حکمت عملی اسٹیڈیز کا ایک تھنک ٹینک ہے نے کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پاک امریکی تعلقات پر ایک گول میز ڈسکشن منعقد کی جس میں پاک امریکہ تعلقات پر گفتگو کرنے کیلئے میرے علاوہ ملک کے 10 معروف معیشت دان، صحافی، ٹی وی اینکرز اور بزنس مینوں کو مدعو کیا گیا۔ CSIS تقریباً 50 سالوں سے اہم عالمی مسائل کے عملی حل کیلئے تجاویز مرتب کرتا ہے ۔ اس ادارے میں دنیا سے 220/اسکالرز، ریسرچرز اور تجزیہ کار کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک اہم پروگرام Crisis، Conflict اور Cooperation (C3) ہے جو واشنگٹن کو بحران، تنازعات اور تعاون کے حل کیلئے اپنی سفارشات پیش کرتا ہے۔ گول میز گفتگو میں جن4 موضوعات پر بحث ہوئی میں موجودہ پاک امریکہ تعلقات کس جانب جارہے ہیں؟ ان میں حائل رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟2014ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان سے امریکہ کے تعلقات میں سیکورٹی، تجارت، امداد اور تعاون کے شعبوں میں کیا تبدیلی آئے گی؟ پاک امریکہ تعلقات بہتر بنانے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ چائنا، انڈیا، افغانستان اور دیگر ممالک مثلاً ایران کو سامنے رکھتے ہوئے خطے میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال سے پاک امریکہ تعلقات پر کیا اثر پڑسکتا ہے؟شامل تھے۔
اس گول میز گفتگو میں میرے ساتھ MISHAL کے چیف ایگزیکٹو عامر جہانگیر، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر ضیاء، کراچی اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین منیر کمال، TDAP کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عثمان ، بیرونی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی،نیوز ون کے رانا مبشر، اے آر وائی کے بزنس ہیڈ حمزہ، امریکن یونیورسٹی TUFTS کی نیہا انصاری اور E2E کے سی ای اوعابد بٹ نے شرکت کی۔ پروگرام کی میزبان واشنگٹن ڈی سی سے آئی ہوئی CSIS کی فیلو صدیقہ حمید تھیں۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے میں نے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان20/اکتوبر1947ء سے تعلقات قائم ہیں جس میں ہمارے مشترکہ مفادات رہے ہیں۔ امریکہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ امریکہ نے سوویت یونین اور افغان جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو استعمال کرکے تنہا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے پاکستان سے افغانستان بھیجے گئے تربیت یافتہ مجاہدین واپسی پر پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا سبب بنے جس سے ہماری معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے لیکن امریکہ نے ہماری معاشی بہتری کیلئے ہمیں کوئی اہم تجارتی مراعات نہیں دیں جبکہ امریکہ نے مراکش، کینیا، بحرین جیسے کئی ممالک جن کی قربانیاں پاکستان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کو ان کی مصنوعات کو امریکہ ایکسپورٹ کرنے پر ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دے رکھی ہے۔ ہم امداد نہیں تجارت کے تحت امریکہ سے ایک طویل عرصے سے ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی کی درخواست کررہے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمن نے بھی امریکہ سے پاکستانی مصنوعات کیلئے مارکیٹ رسائی کی درخواست کی ہے۔ امریکہ نے پاکستانی مصنوعات کی اپنی مارکیٹ میں ڈیوٹی فری رسائی کیلئے اسپیشل اپورچونٹی زونز کی ایک اسکیم دینے کا اعلان کیا تھا اور اس پر کانگریس میں طویل عرصے بحث بھی کی گئی لیکن اطلاعات ہیں کہ یہ اسکیم اب ختم کردی گئی ہے۔ راؤنڈ ٹیبل گفتگو کی میزبان نے بتایا کہ امریکہ میں ٹیکسٹائل کی مراعات دینے کے خلاف ایک بہت ہی طاقتور لابی ہے۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ امریکہ کے برعکس یورپی یونین نے پاکستان کو9/11 کے بعد 2 سال کیلئے پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی EU ایکسپورٹ پر ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دی تھی۔ اس سال بھی یورپی یونین نے75 پاکستانی مصنوعات کو دسمبر 2013ء تک بغیر ڈیوٹی ایکسپورٹ کی اجازت دی ہے اور یکم جنوری 2014ء سے یورپی یونین بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کو بھی جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کیلئے رضامند ہوگئی ہے جس سے ملک میں صنعتی ترقی کو فروغ ہوگا اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ میں نے بتایا کہ ماضی میں امریکہ پاکستان کو امداد کی مد میں حکومتی سطح پر فنڈز دیتا تھا لیکن اب امریکہ نے پاکستان کے ترقیاتی اور سماجی و فلاحی منصوبوں میں براہ راست امداد دینے اور یو ایس ایڈ کی پاکستانی میڈیا میں تشہیر سے عام آدمی کو آگاہی حاصل ہورہی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کے بارے میں پاکستانیوں کی رائے میں تبدیلی آرہی ہے جو ایک کامیاب حکمت عملی ہے۔ اس موقع پر میں نے امریکی حکومت کے پاکستان سے ٹریڈ کے فروغ کے سلسلے میں کی گئی کاوشوں کا بھی ذکر کیا جس میں امریکی تجارتی نمائندوں (USTR) کی میری سربراہی میں جیوت سینٹر نیویارک میں پاکستانی ایکسپورٹرز کی امریکی خریداروں سے ون ٹو ون ملاقات ،لندن میں پاک امریکہ سرمایہ کاری انویسٹمنٹ کانفرنس اور TIFA معاہدے شامل ہیں۔ پاکستان میں امریکہ کی سرمایہ کاری کیلئے دونوں ممالک میں باہمی سرمایہ کاری کے معاہدےBITپر دستخط ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میری امریکہ کے کراچی میں قونصل جنرل مائیکل ڈوڈمین اور ان کی معاشی امور کی انچارج کارا بے بروسکی سے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اب اس معاہدے میں حائل رکاوٹیں ختم ہوگئی ہیں اور انشاء اللہ جلد ہی اس معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے جس سے دونوں ممالک کے مابین سرمایہ کاری کی نئی راہیں کھلیں گی۔اس سلسلے میں نئی ٹریڈ پالیسی کے تحت حکومت بیرونی خریداروں کے پاکستان آمد پر انہیں مطلوبہ انشورنس کور فراہم کرے گی جو ان کی پاکستان سفر کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔
میں نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جس سے ہماری صنعتیں بری طرح متاثر ہورہی ہیں جس کے باعث ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ میں نے تجویز دی کہ امریکہ کو پاکستان کے توانائی کے منصوبوں کیلئے ہنگامی بنیادوں پر مدد کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں، میں نے اسلام آباد میں حال ہی میں منعقدہ پاک امریکہ انرجی گروپ کی میٹنگ کا ذکر کیا جس امریکہ نے پاکستان میں کئی چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہائیڈرو پروجیکٹس میں امداد میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر میں نے بتایا کہ یہ ایک کمرشل پروجیکٹ ہے جو پاکستان کی یومیہ تقریباً2/ارب MMCFD گیس کی کمی کو مختصر مدت میں پورا کرنے کیلئے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن پاکستانی سرحد تک پہنچا دی ہے اور پاکستان کو اپنے حصے کی گیس پائپ لائن مکمل کرنے کیلئے500 ملین ڈالر کے قرضے کی پیشکش کی ہے لیکن عالمی مالیاتی ادارے اس اہم پروجیکٹ میں پاکستان کی مدد نہیں کررہے۔ میں نے بتایا کہ پاکستان نے 19 جولائی 2010ء میں پاک افغان ٹرانزٹ ایگریمنٹ سائن کیا ہے۔
اسی طرح ہم خطے میں انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنارہے ہیں۔ آنے والے وقت میں ایشیاء میں چین اور جنوبی ایشیاء میں انڈیا، پاکستان دنیا کی معیشت اور سیاست میں اہم کردار ادا کریں گے جس میں پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ خطے میں امن کیلئے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ملک کو آج امن و امان سمیت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے لہٰذا پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کیلئے امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔گفتگو میں شامل دیگر شرکاء نے میزبان کو بتایا کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں اقتدار کی حقیقی افغان نمائندوں کو منتقلی ممکن نہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کے کردار کو اہمیت دی جائے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے 2014ء تک انخلاء کیلئے پاکستان، امریکہ طالبان مذاکرات میں مدد کررہا ہے جس کیلئے پاکستان نے کئی اہم طالبان رہنماؤں کو رہا بھی کیا ہے۔ تقریباً 2 گھنٹے جاری رہنے والی اس راؤنڈ ٹیبل گفتگو میں پاک امریکہ مذاکرات میں حائل رکاوٹوں اور مستقبل میں ان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے شرکاء کی طرف سے دی گئی غیر جانبدار تجاویز ایک رپورٹ کی شکل میں واشنگٹن کے اعلیٰ حکومتی اداروں میں پیش کی جائے گی تاکہ مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات کیلئے پرائیویٹ سیکٹر، میڈیا،سول سوسائٹی اور دانشوروں کی آراء کی روشنی میں امریکی پالیسیاں مرتب کی جاسکیں۔
تازہ ترین