• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرین اکثر شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہوچکی ہے اور روایتی انداز کی جگہ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ لے رہی ہے، تعمیرات کی صنعت اب بھی روایتی انداز میں کام کررہی ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کے حوالے سے تعمیراتی صنعت میں کام ضرور ہورہا ہے، تاہم اس کی رفتار سست ہے۔ تعمیراتی شعبے میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی باتیں بھی سنی جارہی ہیں لیکن اس کا عملی نمونہ تاحال دیکھنے میں نہیں آیا۔ اسی طرح مشین لرننگ تعمیراتی صنعت سے ابھی کوسوں دور ہے۔

اگر تعمیراتی مٹیریل کی بات کریں تو ابھی تک دنیا کی اکثر عمارتیں گارے، اینٹ، سریے، سیمنٹ اور شیشے سے تعمیر کی جارہی ہیں۔ ماہرین ایک عرصے سے عمارتوں کی تعمیر میں لکڑی کے استعمال پر کام کررہے تھے۔ خوش قسمتی سے اب دنیا میں لکڑی سے بنی عمارتیں ایک حقیقت بن کر اُبھر رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے ان ہی صفحات پر آپ کو آگاہ کیا تھا کہ ٹوکیو میں لکڑی سے بننے والے دنیا کے بلند ترین ٹاور پر کام کیا جارہا ہے، تاہم اگر اس پر بروقت کام شروع ہوسکا تو یہ ٹاور 2041ء میں ہی مکمل ہوسکے گا۔

اگر موجودہ وقت کی بات کریں تو ناروے نے اس لحاظ سے ایک اعزاز حاصل کرلیا ہے، جہاں لکڑی سے بننے والی دنیا کی بلند ترین عمارت کی آخری منزل کی چھت بھی تعمیرکی جاچکی ہے۔ عمارت کا نام Mjøsa Towerہے اور یہ ناروے کے شہر Brumunddal میں تعمیر کی جارہی ہے، جو اوسلو کے شمال میں واقع ہے۔

18منزل پر مشتمل یہ ٹاور، 85.4میٹر بلندی کے ساتھ لکڑی سے بننے والا دنیا کا بلند ترین ٹاور ہے۔ اس سے پہلے لکڑی سے بنی دنیا کی بلند ترین عمارت کا ریکارڈ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی براک کامن اسٹوڈنٹ ہاؤسنگ بلڈنگ کو حاصل تھا، جو 53میٹر بلند ہے۔

اس ٹاور کے آرکیٹیکٹ ناروے سے تعلق رکھنے والے Voll Arkitekter ہیں۔ عمارت کی تعمیر کا آغاز ستمبر 2017ء کے اوائل میں کیا گیا تھا، جسے رواں ماہ ہر طرح سے مکمل کرکے عوام کے لیے کھولے جانے کی توقع ہے۔ ٹاور کا تعمیراتی رقبہ 11,300مربع میٹر (121,630مربع فٹ) ہے، جہاں اپارٹمنٹس، ہوٹل، ریستوران، کمیونٹی ایریا اور دفاتر بنائے گئے ہیں۔ 4,700مربع میٹر پر مشتمل سوئمنگ ہال بھی اس ٹاور کا حصہ ہے۔

ناروے کے ’ٹمبر ٹاور‘ کی تعمیر ایسے تمام تعمیراتی ڈیزائنرز کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے، جو تعمیرات میں روایتی مٹیریل کی جگہ لکڑی کے استعمال کی وکالت کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، کنکریٹ اور اسٹیل کے مقابلے میں عمارتوں کی تعمیر میں لکڑی کے استعمال کے کئی فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ پری فیبریکیشن اور مٹیریل کا وزن کم ہونے کی وجہ سے تعمیراتی وقت آدھا رہ جاتا ہے۔ حیران کن طور پر بلند عمارتوں میں لکڑی کے استعمال کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ کنکریٹ اور اسٹیل کے مقابلے میں لکڑی آگ کا زیادہ بہتر انداز میں مقابل کرسکتی ہے۔ یہ بات اس لیے بھی درست ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں اسٹیل بہت جلدی پگھلنا شروع ہوجاتا ہے۔

ناروے ٹمبر ٹاور کے سائٹ جنرل کانٹریکٹر ایریک ٹویٹ بتاتے ہیں، ’آگے سے بچاؤ کے قوانین کہتے ہیں کہ ایک عمارت کو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ مسلسل دو گھنٹے تک آگ کو بردا شت کرسکے اور اس دوران وہ گرنے نہ پائے۔ جب آپ اسٹیل اور کنکریٹ سے ایک عمارت بناتے ہیں تو اسٹیل پگھلنے لگتا ہے اور وہ عمارت منہدم ہوجاتی ہے‘۔

اس عمارت کی خصوصیت صرف یہاں تک محدود نہیں ہے کہ اس میں لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ عمارت ناروے کے دریا کے کنارے واقع ہے اور اس کے سامنے کے رُخ (Facade)کو رسمی طرز پر ڈھالا ہوا ہے اور اسے خود کو دُہراتے انداز (Repeating Pattern)میں سجایا جائے گا، جیسے دریا کی اوپری سطح پر پانی دوڑ رہا ہو اور وہاں روشنی رقص کررہی ہو۔

دنیا میں ناروے لکڑی کی عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ اس سے پہلے ناروے ہی میں ایک پرتعیش لگژری عمارت تعمیر کی جاچکی ہے، جو 14منزل پر مشتمل اور 49میٹر بلند ہے۔ مرکزی برجن میں تعمیرشدہ اس عمارت کو The Treeکے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ناروے مستقبل کے لیے پائیدار عمارتوں کی تعمیر میں مصروف عمل ہے، جہاں توانائی کی بچت، پائیداری ترقی اور کمیونٹی آؤٹ ڈور مقامات کے فروغ کو اولیت دی جاتی ہے۔یہ نسبتاً ہلکے وزن کی عمارت طوفانی ہواؤں کی صورت میں 140ملی میٹر تک جھول سکتی ہے۔ عمارت کی اوپری سات منزلوں میں کنکریٹ سے بنا سلیب فلور استعمال کیا گیا ہے تاکہ جھول کو محدود رکھا جاسکے۔ عمارت کی بنیاد کی گہرائی 50میٹر رکھی گئی ہے۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کنکریٹ کے بجائے لکڑی سے تعمیر کی گئی عمارت سے کاربن کا اخراج 30فیصد کم ہوتا ہے۔ ’لکڑی سے عمارت تعمیر کرنے کا مقصد دنیا کو سانس لینے کے لیے بہتر جگہ بنانا ہے‘۔

ماہرین کا خیال ہے کہ تعمیراتی صنعت آنے والے وقتوں میں گاڑیوں کی صنعت کی راہ اپنائے گی۔ ناروے کے معروف سرمایہ کار اور کانٹریکٹنگ کلائنٹ آرتھر بوچارڈٹ کہتے ہیں، ’میرا خیال ہے کہ جس طرح آئندہ 15برس بعد روایتی ایندھن پر چلنے والی کاریں فروخت کرنا غیرقانونی ہوگا، اسی طرح میں توقع رکھتا ہوں کہ تعمیراتی صنعت میں ماحول دوست مٹیریل کا استعمال قانونی ضرورت بن جائے گا‘۔

تازہ ترین