• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل ترین لوگوں میں اتنا وقت توگزارا ہے کہ میں ان کے بارے میں مستند رائے رکھنے کا دعویٰ کر سکوں۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل ترین لوگوں کوعرفِ عام میں معاشرے کی” کریم“ کہا جاتا ہے۔ مجھے پاکستان کی اس ”کریم“ میں شامل بیوروکریٹ ، سفارتکار، کارپوریٹ ایگزیکٹو، قانون دان، ٹیکنو کریٹ، المختصر مختلف انواع واقسام کے پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا تھوڑا بہت موقع ملتا رہا ہے اور بہت سی نامور شخصیات کے بارے میں ان سے وابستہ رہنے والے لوگوں سے تھوڑا بہت سننے کا موقع ملتا رہا ہے۔ جیسے جیسے اس ”کریم“ سے تعلق رکھنے والی معروف و غیر معروف شخصیات کیساتھ میر ا ایکسپوژر بڑھتا گیا ،میں اس نتیجے کے قریب تر ہوتا گیا کہ ہمارے ملک و قوم کو جتنا نقصان اس ”کریم “ نے پہنچایا ہے،پاکستانی قوم کے سارے کے سارے ’چھان بُورے“نے مل کر بھی اس کے ہزارویں بلکہ لاکھویں حصے جتنا نقصان نہیں پہنچایا ہو گا۔ مجھے اس نتیجے پر پہنچے ہوئے تو کافی عرصہ ہو گیا ہو گا لیکن چونکہ میرا یہ نتیجہ اتنا دھماکہ خیز تھا اس لئے میں اس کے اظہار سے کتراتا رہا۔ بعض اوقات تو میں نے اپنی اس رائے پر نظرِثانی کی کئی سنجیدہ کوششیں بھی کیں لیکن وہی ڈھاک کے تین پات والا معاملہ رہا۔ ایک زمانہ تھاجب پاکستان کی اس ”کریم “ میں شامل ہو جانا میری زندگی کا ایک بہت بڑا خواب تھالیکن جب میں اس ”کریم “ میں شامل ہو گیا تو آرزو ہوئی کہ کاش میں اس ”کریم “ سے بے دخل ہو جاؤں(خیر یہ آرزو بھی جلد ہی پوری ہو گئی )۔حال ہی میں مجھے پاکستان کی ”کریم“ کے بارے میں اشفاق احمدصاحب کی رائے پڑھنے کا موقع ملا کہ پاکستان کو جتنا نقصان پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا ہے اتنا تو اَن پڑھ اور جاہلوں نے بھی نہیں پہنچایا، تو میرا بھی تھوڑا سا حوصلہ بڑھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری ادنیٰ سی رائے پر کسی بڑی جامعہ کا ٹھپہ لگ گیا ہو ، سو آج ہمت کر کے اس کو اپنا موضوع بنانے کا جسارت کر رہا ہوں۔
ہمارے ایک بڑے سینئر اور معزز سفارتکار ہیں چونکہ ریٹائر ہوئے مدتیں بیت گئیں اس لئے تیس سالہ سفارتکاری کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات اور بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ قربت میں گزارے ہوئے لمحات کے قصوں کی ایک باقاعدہ ڈکشنری ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے فوراً ہی کوئی نہ کوئی واقعہ بیان کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔انہی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ایوب صاحب کے دورِ حکومت میں امریکی سفارتخانے کا ایک سیکنڈ سیکریٹری تمام سفارتی حلقوں میں اس وقت کے پاکستانی سیکریٹری خارجہ کے بارے میں کہتا رہتا تھا کہ وہ ”پنک“ ہیں (سرد جنگ کے تناظر میں ”پنک “ کا مطلب سرخ سوویت یونین کے ہمدرد کا تھا)۔ اس امریکی کا مشاہدہ سیکریٹری صاحب تک روایت ہوتا رہتا تھا اور یقینا سیکریٹری صاحب کو ناگوار گزرتا تھا لیکن وہ مصلحتاً خاموشی اختیار کئے رکھتے۔ جب ان کی شکایت حد سے زیادہ بڑھی تو انہوں نے امریکی سفارتخانے کے کسی عہدیدارسے اس کا ذکر کر دیا۔ چند دن بعد صدر صاحب نے سیکریٹری خارجہ کو بلا کر کہا ہم آپ کو کسی ملک میں بطور سفیر بھیج رہے ہیں(اس طرح کے واقعات ہمارے نوجوان سفارتکاروں کو ”پالش“ کرنے میں بڑے ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں اور وہ اپنی نوکری کے اوائل ہی میں "Who is who and what is what"جیسے سبق ازبر کر لیتے ہیں)۔ جب انہوں نے اس طرح کے اور بھی دو چار”دلچسپ “ واقعات داغ دےئے تو”کچے“ سفارتکاروں نے ان سے مطالبہ کر دیا کہ جناب آپ ان واقعات کو کتابی شکل کیوں نہیں دے دیتے۔ انہوں نے بہت خوبصورت جواب دیا”ابھی مجھے پاکستان میں سیاست کرنی ہے، میں ان واقعات کو کتابی شکل دینے کا رسک نہیں لے سکتا“۔ محترم ایوانِ بالا کے رکن رہ چکے ہیں اور اسّی سال کی عمر میں بھی ایک سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں ۔ اپنے سیاسی کیرےئر کے خراب ہونے کا خوف اتنا زیادہ ہے اور سفارتکاری کے دوران چڑھنے والی ”پالش“ ابھی تک اتنی گہری ہے کہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتے جس سے ایک عام آدمی پر پاکستان کی خودمختاری کی قلعی کھل جائے مبادا نوجوان نسل کا کوئی سر پھرا پاکستان کو خود مختار ریاست بنانے کا بیڑہ اٹھا لے۔ سفارتکاری کے شعبے میں پاکستان کی کئی کئی عشروں تک” خدمت“ کرنے والے کم وبیش تمام بزرگان اسی سوچ کے حامل ہیں۔انتظامی امور سے وابستہ ”کریم“ اپنے ”دوستوں“،” محسنوں“ اور ”سیاسی گروؤں“ کو اتنی اچھی "compliance" دیتی ہے اور انہیں اتنا "oblige" کرتی ہے کہ ہماری انتظامیہ عملی طور پر انہی ”دوستوں“،” محسنوں“ اور ”سیاسی گروؤں“ کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے۔ ہماری ”کریم “ کی "oblige" کرنے کی خصلت نے پینسٹھ سالوں میں اتنا اچھا پُرفارم کیا ہے کہ ہماری ریاست کا انتظامی ستون اپنی جگہ سے تقریباً کھسک چکا ہے اور اب صرف ایک بھرم سا ہے جو کسی بھی لمحے اُٹھ سکتا ہے۔پھر اس ”کریم“ نے بڑی محنت سے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ ان سے کوئی عام آدمی غلطی سے بھی کبھی"oblige"نہ ہو جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اس ”کریم“ نے اپنی مظلوم قوم اور غریب ملک سے اتنی دولت لوٹی ہے، اس کا اتنی بُری طرح استحصال کیا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی شاید کوئی مثال نہ ملے اور اگر ہم اس کی مثال ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو شاید ہمیں تاریخ کے تاریک ترین ابواب کا بڑی جانفشانی سے مطالعہ کرنا پڑ ے۔ ہمارے ”تگڑے“ انتظامی محکموں کے ایماندار افسروں کیلئے "fandamentalist"کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی صرف فنڈز کھانے والے افسر (ویسے ”تگڑے “ محکموں کے فنڈز بھی لاکھوں روپے ماہوار ہوتے ہیں) اور جو بے ایمان ہوتے ہیں ان پر اللہ کا کتنا ”کرم “ ہوتا ہے اور اللہ انہیں کتنی ”عزت“ دیتا ہے ، آپ اور میں سوچ بھی نہیں سکتے۔یورپ اور امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل کارپوریٹ ایگزیکٹو ایک الگ نسل کی ”کریم “ ہے اور اس ”کریم “ نے جو غدر مچایا ہوا ہے وہ بھی کسی دوسری نسل کی ”کریم “سے کچھ کم نہیں ہے۔ دولت کمانے کی اندھی ہوس ، چاہے کسی بھی طریقے سے ہو، ان کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ کریم اپنی کمپنیوں کے منافعوں پر ان کے مالکان اور اپنے علاوہ اور کسی کا حق ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔ اگر انہیں کہیں مال بنانے کے مواقع نظر آ جائیں تو ان سے استفادہ کرنے کیلئے یہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ عام صارف کے ساتھ ہاتھ کرنے کی ایسی ایسی اسکیمیں بناتے ہیں کہ قیامت تک اس کو سمجھ نہیں آ سکتی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ پھر اپنے ماتحتوں اور خصوصاً ملازمین کا اتنی بُری طرح استحصال کرتے ہیں کہ معمولی سے مشاہروں اور تنخواہوں کے عوض ان کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں اور ان کی محنت سے خودآسودگی کی ایسی منزل تک پہنچ جاتے ہیں جہاں پر بڑے بڑے ”ذوق“ پیدا ہو جاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کی آسودہ زندگیاں ہمارے معاشرے کیلئے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ہیں۔ اسی طرح آپ ہمارے معاشرے کی ”کریم “ کے تمام گروہوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے جائیں آپ کوعمومی طور پر اعلیٰ تعلیم اور ذہانت کی مکمل ناکامی نظر آئے گی۔ جو جتنا زیادہ تعلیم یافتہ اور ذہین ہے وہ ہمارے معاشرے کیلئے اتنا ہی زیادہ نقصان دہ ہے، ماسوائے چند ایک استثنیات کے۔اگر ہم اخلاقیات کو وسیع معنوں میں سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید ہم کہہ سکتے ہے کہ ہر وہ عمل ، سوچ یا طریقہ کار جو اجتماعی زندگی کیلئے سود مند ہو وہ اخلاقی ہے اور جو اجتماعی زندگی کیلئے نقصان دہ ہو وہ غیر اخلاقی ہے ۔ پاکستان کی حد تک اگر بات کی جائے تو یہاں ہمیں اعلیٰ تعلیم و ذہانت، اخلاقیات کے ساتھ رشتہ معکوس میں جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں رائج اس عام خیال کی صحت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ زیادہ تعلیم سے ہمارا معاشرہ ترقی کا سفر شروع کر دے گا۔کیا اس خیال میں کوئی وزن ہے کہ فرد کی اخلاقی حالت تعلیم میں اضافے کے ساتھ خود بخود بہتر ہوتی جاتی ہے یا پھر معاشرے کو تعلیم کے ساتھ ساتھ فرد کی مناسب اخلاقی تربیت کا بھی سامان کرنا چاہئے؟کیا اخلاقی تربیت سے عاری اعلیٰ تعلیم معاشرے کیلئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟کیا اخلاقیات سے بے بہرہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین افراد کا بوجھ کوئی معاشرہ ایک لمبے عرصے تک اٹھا سکتا ہے؟ ہم سب کو ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
تازہ ترین