• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیدہ بتول، کراچی

پیارے بچو! آپ نے ملا نصرالدین کا نام تو ضرور سنا ہو گا ، اُس کے کارنامے بھی پڑھے اور سنے ہوں گے۔ ملا کی عمر کا زیادہ ترحصہ بادشاہوں کے درباروں میں گزرا، وہ ہنس مُکھ اور بذلہ تھا۔

بادشاہ اکثر اُس پر انعام و اکرام کی بارش کرتا رہتا تھا۔ دربار میں ملا نصر الدین سے حسد کرنے والے بھی تھے، جو اس کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتے رہتے تھے ، ایک دن کچھ یوں ہواکہ ملا کا آمنا سامنا بادشاہ کے مخالف سے ہوا ، ملا، نے اس کے سلام کا جواب دے کر حال پوچھ لیا۔ بس پھر کیا تھا، کسی نے اتنی سی بات کا بتنگڑ بنا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر کے انہیں ملا سے بد ظن کر دیا۔ بادشاہ ملا سے ناراض ہو گیا اور محل میں اُس کا داخلہ بند کر دیا۔ چند ماہ تک تو مُلا اپنی جمع پونجی خرچ کرتا رہا۔ کہتے ہیں، بیٹھ کر کھانے سے قارون کا خزانہ ہو یا پھر دیناروں سے بھرے کنویں، خالی ہو جاتے ہیں۔ کئی ہمدردوں نے ملا سے کہا کہ وہ بادشاہ سے معافی مانگ لے، مگر ملا کا کہنا تھا کہ عزت نفس بھی کوئی چیز ہوتی ہے، میری خطا نہیں تو معافی کیوں مانگوں؟ آخر انسان میں اَنا بھی ہونی چاہئے۔ چند ٹکوں کی خاطر بادشاہ کے ہاں ماتھا ٹیکوں۔ میرا رازق اللہ ہے، وہ ہی روزی دے گا۔ ملا نے جمع پونجی ساتھ لی اور یہ سوچ کر ملک یمن جانے کا ارادہ کیا کہ، وہاں کے بادشاہ کے ہاں نوکری کر لے گا۔

وہ ایک گھنے جنگل کے قریبی گاؤں سے گزرا۔ رات وہاں گزاری تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ بندروں سے بہت تنگ ہیں۔ بندر اُن کے کھانے پینے کا سامان ٹوپیاں اور برتن اُٹھا کر لے جاتے۔ ملا کو ایک ترکیب سوجھی اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اُس نے اعلان کیا کہ وہ بندروں کا تاجر ہے، اُنہیں دوسرے ملک میں لے جا کر بیچتا ہے۔ اُسے بڑی تعداد میں بندردرکار ہیں۔ ایک بندر کے سو دینا ر دے گا۔ وہ بھی نقد، بندر لاؤد ینار لے جاؤ۔ شروع میں گاؤں والوں نے سمجھا کہ بوڑھا پاگل ہے، یہاں اتنی تعداد میں بندر پھرتے ہیں، یہ سو دینار میں خرید رہا ہے، کچھ دیہا تیوں نے کہا کہ بوڑھے کے دعویٰ کو آزمانا چاہئے۔ وہ بندر لے کر مُلا کے پاس گئے تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی، جب اس نے سو سودینار کے عوض بندر خرید لئے۔ اب تو گاؤں میں بندر پکڑ نے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ لوگ سارا دن بندر پکڑتے اور بوڑھے سوداگر کو بیچ دیتے۔ جب سوداگرنے دیکھا کہ اب علاقے میں بندر کم ہوگئے ہیں تو اعلان کیا کہ وہ فی بندر دو سو دینار دے گا۔ دیہاتیوں کو چسکا لگ چکا تھا، وہ باقی ماندہ بندروں کی تلاش میں نکل پڑے، جو کسی کے ہاتھ لگتا، سودا گر دو سو دینار میں اسے خرید لیتا۔ آس پاس بندر کم ہو گئے تو اُس نے فی بندر پانچ سودینار کا اعلان کر دیا۔ بڑی مشکل سے دو تین بندر ملے۔ اب سوداگر نے اعلان کیا کہ میں اپنے ملک جا رہا ہوں جب واپس آؤں گا تو فی بندر ہزار دینار میں خریدؤں گا۔ اگلے دن لوگوں نے دیکھا کہ ایک سفید داڑھی والا بوڑھا بندروں سے بھرے کمروں کے سامنے بیٹھا ان کی حفاظت کر رہا ہے۔ چوں کے اب علاقے میں بندر ختم ہوگئے تھے تو دیہاتیوں نے سوچا کہ اس بوڑھے نگراں کی منت سماجت کر کے کچھ بندر حاصل کر لیں۔ اب گاؤں والے باری باری اس کے پاس آتے اور اُس کی منت سماجت کرتے کہ وہ انہیں بندر بیچ دے، اتنے بندروں میں چند ایک کم ہوں گے تو کون سا سوداگر کو پتہ چلے گا، مگر اُس نے انکار کر دیا۔ دیہاتیوں نے جنگل چھان مارا مگر کوئی بندر ہاتھ نہ لگا۔ وہ پھر بوڑھے کے پاس آئے اور کہا کہ، ہمیں کچھ بندر بیچ دے۔ بوڑھے نگراں نے فی بندر آٹھ سو دینار مانگے، اُنہوں نے سات سو دینار فی بندر پر سودا کیا۔ گاؤں والوں نے سوچا کہ، اگر ایک بندر ہزار دینار میں فروخت ہوگا پھر بھی تین سودینار منافع ہو گا۔ نگراں نے چند منٹ خاموش رہنے کے بعد کچھ بندر بیچ دیئے اور باقیوں کو رات کے مختلف اوقات کا وقت دیا۔

دیہاتیوں نے سونا، چاندی، قیمتی جانور وغیرہ دھڑا دھڑ بیچ کر بندر خرید لئے۔ اب اُنہیں سوداگر کا انتظار تھا۔ لیکن دس دن گزر گئے، نہ بندروں کا نگراں نظر آیا اور نہ ہی سوداگر آیا۔ اب گاؤں والوں کو احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ وہ بندر خرید نے اور بیچنے والا ایک ہی شخص تھا۔ اب سب پچھتا رہے تھے کہ انہوں نے لالچ کیا اور اس کی سزا بھی مل گئی۔

دیکھا بچو! لالچ کتنی بُری بلا ہے اس سے بچو۔

تازہ ترین