• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ آپ کی بھی دفتر سے چھٹی ہے۔ بچوں کی اسکولوں سے۔ بس بیگم اور بہوئوں کی چھٹی نہیں ہے۔ وہ تو بے چاری روز کی طرح آج بھی باورچی خانے میں گھر کے دوسرے حصوں میں مصروف کار رہیں گی۔

میں بھی اتوار کو اپنے پوتوں پوتیوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں۔ نواسے نواسیاں آجائیں تو وہ بھی شامل گفتگو ہولیتے ہیں۔ میں تو ابھی تک فروری 2019کے آخری ہفتے کی حشر سامانیوں کے سرور میں ہوں۔ پہلے بھی ایسے تاریخی دن آتے رہے ہیں جب ایک ایک ہفتے میں کئی کئی سال گزر گئے۔ جغرافیے بدل گئے۔ تاریخ کے اوراق تیزی سے پلٹے گئے۔ میں نے تو اس تاریخ ساز ہفتے پر اپنے پوتے پوتیوں سے بات کی ہے پوچھا ہے کہ ان کے کیا تاثرات رہے ہیں۔ وہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ پاکستان کے وزیرا عظم عمران خان کی طرف سے گرفتار بھارتی ہوا باز کو غیر مشروط انداز میں رہا کرنے پر ان کا کیا تبصرہ ہے۔ آپ بھی آج ان سے ان واقعات پر تبادلۂ خیال کریں۔ ہم بچوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ سمجھتے ہیں کہ ان کو ان امور میں دلچسپی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ بہت غور سے یہ تبصرے دیکھ اور سن رہے ہیں۔ ان کے اپنے تاثرات ہیں۔ میر پور آزاد کشمیر کی جویریہ یاسمین خود بھی لکھتی ہیں۔ لیکچرر ہیں۔ میرا گزشتہ کالم پڑھ کر ان کی 17سالہ بیٹی کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمیں دنیا میں حشر اٹھادینا چاہئے۔ دنیا بھر کے اہم ممالک میں ہمارے سفارت خانے متحرک ہوں۔ تصاویر کے ذریعے اور مظلوم کشمیریوں کی تقاریر سے دنیا کے سامنے بھارت کے اصل مکروہ چہرے کو بے نقاب کریں۔ اتنا شور کریں کہ دنیا ہماری بات سننے پر مجبور ہوجائے اور تب تک یہ سلسلہ نہ رکے جب تک اقوام متحدہ اس قضیے کے حل کی کوئی کوشش نہ شروع کردے۔ ایک دفعہ ایسا ہوگیا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر نہ رہے گا۔

دیکھیں۔ ہمارے مستقبل کی سوچ کتنی واضح اور پُر امید ہے۔

ہم سب کو یہ بہت ہی گہرا احساس ہے کہ ہمارا ماضی المیوں۔ غلطیوں۔ شکستوں سے معمور ہے۔ ایسے واقعات بہت کم ہیں جن پر فخر کیا جاسکے۔ ایسے ایسے سیاہ دن۔ایسی راتیں جو جاگتے گزریں جو اب بھی نیند اڑادیتی ہیں۔ وطن دو لخت ہونے کا عظیم المیہ ۔ پھر کشمیر نہ ملنے کا مسلسل دُکھ۔ جاگیرداریاں۔ سرداریاں۔ زمینداریاں۔ مسلط رہنے کا غم۔ کروڑوں ہم وطنوں کا غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا قلق۔ ملکی خزانے سے اربوں روپے لوٹے جانے کا تاسف۔ قدرتی وسائل سے مالا مال وطن عزیز پر اربوں ڈالر کے قرضوں کی خلش۔ اور یہ سب اندوہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کررہے ہیں۔

ماضی میں کس نے کیا کیا۔ کس نے لوٹا۔ کس نے غداری کی۔ اداروں کا کیا کردار رہا۔ ان سے آگاہی ضروری ہے۔ ان کا تجزیہ بھی ناگزیر ہے۔ مگر یہ سب کچھ اس لئے ہونا چاہئے کہ ہمارا مستقبل ان آلائشوں سے پاک ہو مگر جب ہم اس بحث میں الجھے رہیں گے کہ اس المیے کا ذمہ دار فلاں ہے فلاں نہیں ہے۔ اسی میں ہم ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیتے ہیں۔24گھنٹوں میں سے زیادہ وقت انہی بے مقصد بحثوں میں گزر جاتا ہے۔

مستقبل کی صورت گری ہمارے اپنے لئے بھی ضروری ہے۔ ہماری اولادوں کے لئے تو بہت ہی لازمی ہے۔ ہمیں ان کے لئے ایسا ماحول تشکیل کرنا ہے جس میں مذہب کے حوالے سے استحصال نہ ہو۔ فرقہ پرستی نہ ہو۔ دہشت گردی کسی وجہ سے بھی نہ ہو۔ نہ مذہبی انتہا پسندی نہ لسانی نہ نسلی۔ ایسا مستقبل جو نہ صرف محفوظ ہو۔ روشن ہو۔ خوشحال ہو۔ جس میں اللہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جارہے ہوں۔ ماضی میں جو غلطیاں ہوچکیں۔ وہ اب دہرائی نہ جائیں۔

ماضی کی غلطیوں میں سب یہ مانتے ہیں کہ اقتدار عوام کی مرضی سے منتقل نہیں ہوا۔ مارشل لا لگتے رہے۔ ہم سب کی آرزو ہے کہ اب مارشل لا کی تاریک راتیں نہ آئیں تو ہمیں ان غلطیوں کو نہیں دہرانا ہوگا۔ جو مارشل لا کا سبب بنتی ہیں۔ ان غلطیوں کی شناخت ہوچکی ہے۔ ان کو نہ دہرائیں۔ قانون کا نفاذ یکساں نہیں رہا ہے۔ چھوٹے صوبوں کو ان کے اختیارات نہیں دیے گئے۔ سب سے زیادہ نا انصافیاں بلوچستان کے عام لوگوں کے ساتھ ہوئی ہیں۔ ان کے سردار بھی ان کے روشن مستقبل میں رُکاوٹ بنے رہے۔ دوسرے صوبوں کے عوام بھی ان سے نا انصافیاں کرتے رہے۔ بلوچستان ہمارا مستقبل ہے۔ سارے خزانے وہیں ہیں ۔ امکانات بھی وہیں ہیں۔

فروری 2019کے آخری ہفتے میں قوم نے جس ذہنی پختگی کا مظاہرہ کیا اور ایسا دائرہ شناخت کرلیا جہاں سب کی سوچ ایک تھی۔ اب ہم مستقبل کے حوالے سے ایسے مزید دائرے تلاش کریں ۔ جہاں سب پاکستانی متفق ہوسکتے ہیں۔ یہ ہم سب کو باور ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ اس کی سرحدوں پر۔ اس کے میدانوں میں۔ ریگ زاروں میں کوہساروں میں پاکستانیوں کا گرم خون رچا ہوا ہے۔ اسی طرح انڈیا ایک حقیقت ہے۔ بنگلہ دیش ایک حقیقت ہے۔ افغانستان ایک حقیقت ہے۔ پاکستان کے اندر۔ پنجاب۔ بلوچستان۔ سندھ۔ کے پی ۔ فاٹا۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر سب اپنی اپنی جگہ حقیقت ہیں۔ ان سب کا اپنا ماضی ہے۔ اپنی روایات اپنی اقدار۔ اور ان سب کا مستقبل ایک ہے۔ مستقبل ہم سب کو آواز دے رہا ہے۔ ہم سب کو مل کر ایسا مستقبل تعمیر کرنا ہے جہاں ماضی کی روشن روایات تو ہوں لیکن خود غرضیاں استحصال اور لوٹ مار نہ ہو۔

دنیا کی وہ سب قومیں جو ایک سسٹم بناچکی ہیں۔ جہاں قانون کا نفاذ سب کے لئے یکساں ہے جہاں فرقہ پرستی نہیں ہے۔ جہاں میرٹ کا قتل نہیں ہوتا۔ان سب نے فروری کے اس ہفتے میں پاکستانی قوم کا پختہ شعور دیکھ لیا۔ اب ان کو بھی یہ اعتماد ہے کہ ایسی ذہنی پختگی والی قوم یقیناََ یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ آئندہ دس پندرہ برس بعد وہ اپنے لئے کیسا ملک اور کیسا معاشرہ چاہتی ہے۔ یہ مباحثے۔ یہ تبادلۂ خیال ہر شہر ہر یونیورسٹی میں ہونے چاہئیں کہ مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کیا اقدامات کیے جائیں۔ یہ امید ہم پارلیمنٹ سے نہ رکھیں۔ یہاں اکثریت ان طاقتوں کی ہے جو حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہیں۔ جہاں قانون سب کے لئے یکساں ہو۔ جہاں صرف اور صرف میرٹ کی حکمرانی ہو۔ آپ اپنی اولادوں سے ۔ نوجوانوں سے ہم کلام تو ہوں ان کے ذہن صاف ہیں ۔ وژن واضح ہیں۔ ماضی اب ہمارا نہیں ہوسکتا مستقبل ہے جسے ہم اپنا بناسکتے ہیں۔

تازہ ترین