• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت لاہور سے اسلا م آباد بلکہ پورا پاکستان موسم کے لحاظ سے سرد ہے، کراچی میں بھی امن و امان کے مسئلہ کی پریشانی کے باوجود بہرحال ٹھنڈی ہوائیں شام کو چل رہی ہیں، دوسری طرف سیاسی حالات کے پس منظر میں صورتحال گرما گرم ہے، اسلا م آباد میں تو اس وقت کوئی شادی کی تقریب ہو یا کوئی سرکاری یا غیر سرکاری اجتماع، ہر جگہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات اور ان کا مجوزہ لانگ مارچ زیر بحث ہے، اس حوالے سے کئی چیزیں اور خدشات قیاس آرائیوں سے آگے جا رہے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر عام انتخابات کا التوا ہو گیا یا انتخابات کے نتیجہ میں اگر ہنگ پارلیمنٹ آ گئی تو پھر ہماری معیشت کا کیا ہو گا۔ جس کے حالات اس وقت قطعی طور پر اچھے نہیں ہیں، تاہم حکومتی دعوؤں کے مطابق تو معیشت اور معاشی حالات میں بہتری ہو رہی ہے جبکہ عملی طور پر ایسا نہیں ہے، اسلام آباد میں تو بڑی بڑی محفلوں میں ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ سے قبل پیر صاحب گولڑہ شریف اور دیگر مذہبی اور سماجی شخصیات کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کے لئے کئی سو ویگنوں کا بندوبست کیا جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ کہ یہ ویگنیں لاہور سے بک کی جائیں گی۔ اس پر ہمیں محترم نواز شریف کا بطور وزیراعظم دور یاد آ گیا۔ جب ان کے لئے ویگنیں لاہور سے مری اور اسلام آباد جایا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری بھی ”اتفاق فیملی“میں غیر فیملی ممبر کے طور پر بڑے اہم رہے ہیں، انہیں میاں شریف مرحوم کی بڑی قربت حاصل ہوتی تھی۔ اس حوالے سے جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں اتفاق شوگر ملز ساہیوال کی افتتا حی تقریب ہوئی تو انہیں وہاں خصوصی خطاب کا موقع ملا۔ اس پر انہیں بے پناہ داد ملی۔ وہاں اس وقت پنجاب کے ایک سیکرٹری نے انہیں پوچھا کہ آپ نے بڑے کمال کا خطاب کیا جس پر ڈاکٹر طاہر القادری کا جواب تھا کہ یہ سب انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کہنے کے لئے کہا گیا تھا۔ اس پس منظر میں اگر ان کے لانگ مارچ کے لئے ویگنیں لاہور سے جاتی ہیں تو پھر کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اسلام آباد میں سب سے زیادہ فکر اس بات کی پائی جاتی ہے کہ اگر لانگ مارچ کے شرکاء دو دن تک وہاں رہ لیتے ہیں تو پھر اسلام آباد اور پاکستان کا سیاسی نقشہ بدل سکتا ہے، ایسی صورت میں پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے موثر اقدامات ناگزیر ہو سکتے ہیں اور اگر اس لانگ مارچ سے پہلے کسی تھرڈ پارٹی کے ذریعے کچھ معاملات پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو یہ ممکن ہے کہ عام انتخابات متناسب طرز پر کرانے کا فیصلہ کر لیا جائے تاکہ دونوں بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی پارلیمنٹ (وفاق اور صوبوں سمیت) میں بالادستی ختم کر کے پاکستان تحریک انصاف، ڈاکٹر طاہر القادری کی زیر نگرانی نئے مجوزہ اتحاد کو بھی اسمبلیوں میں آنے کا موقع مل سکے۔ تاہم ایک رائے یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ اگر یہ معاملات حل نہیں ہوتے تو پھر بالکل نئے سکرپٹ کے ساتھ نئی نگران حکومت 60 دن یا 90 دن کے لئے قائم کر دی جاتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ میں ”احتساب“ اور صحیح افراد کے چناؤ کے لئے وقت کم ہونے کی بنیاد پر اس حکومت کا دورانیہ کم از کم 3 سال کرا لیا جاتا ہے تو پھر پاکستان میں انڈونیشیا کی طرز پر ایک نیا سیاسی نظام قائم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ جس میں مذہبی جماعتوں یا گروپوں کی قیادت میں نظام حکومت چلایا جائے اور پس منظر میں ان کا ریمورٹ قومی سلامتی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے والوں کے ہاتھ میں ہو یہ ماڈل انڈونیشیا میں تو کامیاب ہو چکا ہے، وہاں کی معیشت اب کافی بہتری کی طرف جا رہی ہے جبکہ پاکستان کا ماحول اور حالات تو یکسر مختلف ہیں اس لئے یہاں تو ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں عوام کی روٹی اور سکیورٹی کے مسائل حل ہوں کیونکہ اس وقت پاکستان داخلی طور پر خاصے پریشان کن حالات سے دو چار ہے، جس کی بنیادی وجہ گورنس اور رول آف لاء ہے۔ اس کیلئے تو نئی پارلیمنٹ کو اپنا موثر کردار ادا کرنا ہو گا جو کہ موجودہ پارلیمنٹ ادا نہیں کر سکی۔ اس کیلئے قادری لانگ مارچ کی نہیں، ملکی نظام چلانے والوں کو مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے کچھ کرنا ہو گا حالیہ عام انتخابات کے دنوں میں لاہور کی ایک بھرپور مہم کے ذریعے وال چاکنگ کے ذریعے یہ لکھا گیا تھا کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے، پھر کسی منچلے نوجوان نے اچھرہ نہر میں نیو کیمپس کے پاس لکھ دیا تھا کہ ظالمو قاضی نہا رہا ہے، اس کے بعد کیا ہوا، جماعت اسلامی الیکشن میں کوئی بڑی پوزیشن نہ حاصل کر سکی۔ اب اسلام آباد میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ ظالمو قادری آ رہا ہے، لیکن ایک محفل میں ایک اہم شخصیت نے یہ کہہ دیا کہ چونکہ پنڈی اسلام آباد میں کوئی نہر نہیں ہے، اسلئے ہو سکتا ہے کہ روال ڈیم کے کسی کنارے لکھ دیا جائے کہ ظالمو قادری نہا رہا ہے، تاہم موجودہ حالات کے حوالے سے سب کچھ ممکن ہے۔ مگر دیکھنا ہے کہ لانگ مارچ کے 72 گھنٹے پہلے کیا ہوتا ہے اور 96 گھنٹے بعد کیا ہوتا ہے! کیا سب ملک و قوم کی بہتری اور مفاد میں ہو گا یا معاشی اور سماجی حالات مزید پریشان کن ہو جائیں گے۔
تازہ ترین