• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ماہ لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بعض بہت اہم نکات اُٹھائے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ کی کہ ”عوام کسی قیمت پر غیرآئینی انتخابات قبول نہیں کریں گے“ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس معروضے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، مثبت رویہ یہ ہوگا اس حقیقت کو جانا جائے کہ کیا ماضی میں جو انتخابات ہوئے ہیں وہ غیر آئینی تھے، اس بات کو تو جانے دیجیئے کے آیا وہ انجینئرڈ تھے ان میں دھاندلی کی گئی تھی یا نہیں ، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ماضی میں جو انتخابات ہوئے ان میں سیاسی جماعتوں اوران کے لیڈروں کے مخصوص مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیااور آئین کی شق نمبر62کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی اور الیکشن کمیشن نے اس طرف سے آنکھیں بند کرلیں۔حالانکہ قومی پریس میں اس کی نشاندہی کی گئی میں نے خود اپنے ایک کالم میں جو 28 /دسمبر 2000ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا، لکھا ”جمعہ 22/دسمبر 2000ء کے جنگ کے آخری صفحے پرایک تین کالمی خبر شائع ہوئی ہے کہ 9/ امیدواروں کی نااہلی کیلئے لاڑکانہ پولیس کی ہائی کورٹ میں درخواست ان کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا ریکارڈ موجود ہے، ریٹر ننگ افسر کو بتا دیا گیا تھا لیکن انہوں نے توجہ نہیں دی بعض امیدواروں کو بلامقابلہ ناظم اور نائب ناظم قراردے دیا گیا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ پردہ زنگاری میں کون کیا کررہا ہے یہ مطالبہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ آنے والے انتخابات آئین کے مطابق ہونے چاہئیں، اگر 1973ء کے آئین کی شق 62 کو موٴثر طور پر نافذ کیا جائے اورکسی کے ساتھ رو رعایت نہ کی جائے خواہ کتنا ہی بااثر شخص کیوں نہ ہو اگر انتخابات آئین کے مطابق ہوں گے تب ہی ان کے شفاف ہونے کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔اگر ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ یہ ہے کہ نگران حکومت کے لئے عدلیہ فوج اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس کی تشکیل سے پہلے مشاورت میں شامل کیاجائے اس میں کیا مضائقہ ہے اگر فوج کی نگرانی میں الیکشن کرانے کی بات کی جارہی ہے تو فوج سے مشاورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نگراں حکومت میں ایسے افراد شامل ہوں جو کسی کے دباؤ میں نہ آئیں معراج خالد بہت نیک آدمی تھے، انہوں نے کہاکہ انتخابات سے پہلے احتساب ہونا چاہئے لیکن اس وقت کے صدر نے ان کی ایک نہ چلنی دی معراج خالد جیساآدمی دباؤ میں آگیا، موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو جو معراج خالد کی کابینہ میں وزیرقانون تھے انہوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن دباؤ اورغیر آئینی روش کو منظور نہیں کیا۔مصر کے حالات ہمارے سامنے ہیں تیونس میں کیا ہوا، حکومت عوام کے سامنے نہ ٹھہر سکی لیبیا میں کیا ہوا اس لئے معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے، اگر عوام لاہور میں اتنی تعداد میں نکل سکتے ہیں تو یہ بڑا لمحہ فکریہ ہے، متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت میں کھڑے نظر آ رہے ہیں، اب تک جو ردعمل سامنے آیا ہے اس میں اہم ردعمل ہے اگر طاہر القادری رہنما بن کر سامنے آنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد سیاسی لیڈر بننا نہیں ہے، تو وہ صحیح سمت میں جارہے ہیں ، اب ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ نگراں حکومت کی تشکیل کے لئے عدلیہ ، فوج اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو نظرانداز کرنا مشکل ہو جائے گا اور یہ کام صرف دو جماعتیں نہیں کرسکیں گی۔اگر عوام قانون کی عملداری اور آئین کی پاسداری پر سیاستدانوں کو مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے تو موجودہ اسمبلی کے ساٹھ ستر فیصد چہرے غائب ہو جائیں گے اور ایک نئی قیادت ابھر کے سامنے آجائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ روایتی سیاسی پارٹیاں اورکرپٹ سیاستدانوں کا مستقبل خطرے میں ہے جو امیدوار 1973 ء کے آئین کی شق نمبر62 کے تحت اچھے کردار کا حامل، اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھنے والا دیانت دار اور امین ہی انتخاب لڑ سکے گا۔ کسی اخلاقی پستی میں ملوث، جھوٹ بولنے والا اور اخلاقی جرم میں سزا یافتہ شخص الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ابھی فضا میں ڈاکٹر طاہر القادری کی سن گن تک نہیں تھی نہ ان کے ا ٓنے کا کوئی چرچا تھاوہ تو کینیڈا میں تھے کسی سالوں سے کہ وہ پاکستان آگئے اور ایک پلان ساتھ لیکر آئے اور وہ انہوں نے مینار پاکستان کے جلسے میں عوام کے سامنے رکھ دیا ہے پہلے مرحلے میں وہ کامیاب ہو گئے ہیں، میں نے 3/دسمبر 2012ء کے اپنے کالم نیرنگی سیاست میں لکھا تھا ”ابھی ایک نعرہ لگایا جائے گا ۔جب غیر جانبدار حکومت اقتدار سنبھالے گی کہ الیکشن بعد میں ہوں پہلے سیاستدانوں کا اور اقتدار میں رہنے والوں کا محاسبہ کیاجائے۔“یہ فریضہ الیکشن کے التواء کے بغیر بھی ہو سکتا ہے ذرا حوصلے کی بات ہے پنجاب میں برادریوں کی بنیاد پر قائم حلقہ بندیوں، جاگیرداروں کے علاقوں، سرداروں کے حلقوں کو اکثر نو اس طرح منظم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی اجارہ داریاں ختم ہو جائیں اور ووٹرز اپنا حق رائے دہی آزادی اور غیر جانبداری سے استعمال کرسکے موجودہ صورتحال میں ایسا ممکن نہیں ہے، ڈاکٹر طاہر القادری طاقتور کے نیچے سے قالین ” کھینچنا چاہتے ہیں، وہ پوری طاقت و استعمال کرینگے ۔ ایسا صرف عوام کی طاقت سے ہو سکتا ہے ورنہ نہیں یہ 14/جنوری کو معلوم ہوجائے گا، کہ اب ہوا کا رخ کس طرف ہے۔
تازہ ترین