• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک بار پھر یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وضع کردہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ایک بار پھر انتہا پسند گروہوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی باتیں کی جا رہی ہیں اور نہ ہی پہلی مرتبہ دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون ہو رہا ہے۔ اب تو یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا پاکستان ہمیشہ اس مسئلے میں الجھا رہے گا یا کبھی اس مسئلے سے مکمل طور پر نجات بھی حاصل کر سکے گا؟

یہ اس وقت پاکستان کا بنیادی سوال ہے۔ اس پر انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت مباحث ہو چکے ہیں۔ پاکستان کو اس کیفیت سے نکالنے کے لئے ان مباحث کے دوران بہت سی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں لیکن کوئی بھی تجویز کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ شاید اس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ تجویز دینے والوں نے اپنی ذہنی مشق کے دوران ان مشکلات کا احاطہ نہیں کیا ہو گا، جو تجویز پر عمل درآمد میں پیش آ سکتی ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد خصوصاً وفاقی اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں کے قیام کے بعد سویلین حکومتیں خارجی امور کے ساتھ ساتھ داخلی امور پر بھی بہت حد تک لاتعلق ہو گئی ہیں اور اپنے طور پر کچھ نہیں کرتیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنا ’’اِن پُٹ‘‘ بھی نہیں دیتیں یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو چار سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، حالانکہ یہ پلان مختصر مدت کے اہداف کے حصول کے لئے بنایا گیا تھا لیکن اب تک اس پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں اور کالعدم یا دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون آپریشنز بھی ہو رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مذکورہ بالا سوال سمیت کئی دیگر اہم سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لئے سول سوسائٹی کے آزادانہ ’’تھنک ٹینکس‘‘ یا ریسرچ اداروں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک میں اس طرح کے تھنک ٹینکس نہ صرف اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ پبلک اور اسٹرٹیجک پالیسیوں کی تشکیل میں ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ چین جیسے ملک میں، جہاں کمیونسٹ پارٹی کا سب سے نچلی سطح والا یونٹ از خود ایک تھنک ٹینک ہے اور وہ پارٹی کو باقاعدہ طور پر اپنا ’’ان پٹ‘‘ دیتا رہتا ہے، بھی چینی حکومت کی مالی امداد سے کئی غیر سرکاری تھنک ٹینک مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ اب تو سرکاری امداد کے بغیر بھی پرائیویٹ تھنک ٹینک وجود میں آ چکے ہیں، جن کے تحقیقاتی کاموں کو حکومت بہت اہمیت دیتی ہے اور ان سے استفادہ کرتی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ کچھ تھنک ٹینک کام کر رہے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج اور سویلین سب ایک ’’پیچ‘‘ پر ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں لیکن کسی وسیع تر مشاورت یا بحث و مباحثے کے بعد جو اتفاق پیدا ہوتا ہے، ویسا اتفاق بھی نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے لئے جو اقدامات کئے گئے، ان کا دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا کہ یہ کرپشن کے خلاف مہم میں تبدیل ہو گیا۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے طریقہ کار پر بھی بین السطور سیاسی قوتوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ خود سیاسی جماعتوں میں بھی بہت سے معاملات پر اتفاق نہیں ہے۔ اس صورتحال میں بڑے بڑے دانشور، مختلف شعبوں کے ماہرین اور سماجی طور پر سرگرم لوگوں کے تھنک ٹینکس ایک متفقہ پالیسی ایجنڈا تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جن لوگوں نے نیشنل ایکشن پلان وضع کیا، انکی دانش کو نہ تو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی نیت پر شک کیا جا سکتا ہے لیکن اس پلان پر اتفاق صرف اس لئے تھا کہ اختلاف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ 15جنوری 2015ء کو جب اس پلان کا باقاعدہ اعلان کیا گیا، اس سے پہلے 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں نے ہمارے معصوم بچوں سمیت 140سے زائد بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا تھا اور پوری قوم صدمے اور غم سے نڈھال تھی۔ اس صورتحال میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے دوران تھنک ٹینکس کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تھا۔ آج بھی یہ تھنک ٹینکس پاکستان کو اس بنیادی مسئلے سے نکالنے کیلئے اس سے جڑے ہوئے کئی دیگر سوالوں پر بھی کام کرکے اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ 1947ء سے 1977ء تک 30سالوں میں پاکستان ایک لبرل سماج اور آگے دیکھنے والا ملک تھا، جو مسلسل ترقی کر رہا تھا۔ لوگوں کو مذہبی اور مسلکی آزادی تھی اور لوگوں میں یہ شعور بھی تھا کہ ان کی یہ آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے، جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے۔ پاکستان کی تیزی سے ترقی کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کی بندرگاہ اور ہوائی اڈے اس خطے میں سب سے زیادہ مصروف تھے اور سب سے زیادہ بحری اور فضائی ٹریفک یہاں ہوتی تھی۔ پاکستان تیزی سے صنعتی طاقت بن رہا تھا۔ پاکستان قائداعظم کے تصورات کے مطابق ایک ملک تھا، جہاں انتہاپسندی کے لئے حالات سازگار نہیں تھے اور نہ آج تک ہیں۔ پھر ایک بین الاقوامی سازش کے ذریعے اور عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ انتہاپسندی پاکستانی ریاست کے جوہر میں نہیں تھی اور نہ ہی پاکستانی معاشرے کا خاصا تھی۔ یہ انتہاپسندی بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ، اس ایجنڈے کی تکمیل کی ضرورت تھی اور آج تک ہے۔ اس انتہاپسندی سے ہمارے کچھ حلقوں کے مفادات بھی وابستہ ہوگئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے لوگ راسخ العقیدہ مسلمان تو ہیں، انتہاپسند نہیں اور انتہاپسندی کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں۔ پاکستان کو ترقی کی پٹڑی سے اتارا گیا۔ اس خلا میں دبئی، ہانگ کانگ اور ملائیشیا جیسے ترقی یافتہ ممالک وجود میں آئے۔ پاکستان دہشت گردی کے عذاب اور اس سے نمٹنے کے مسائل میں الجھتا گیا۔ انتہاپسندی کے خلاف سیاسی اور سماجی مزاحمت ختم ہوگئی اور پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں لکھنے، پڑھنے اور سوچنے کا کلچر ختم ہوگیا۔ سیاسی جماعتوں میں مرکزی کمیٹی، صوبائی کمیٹیوں اور مختلف سیل کا کوئی تصور نہیں ہے، نہ کوئی تھنک ٹینک نہ خارجہ کمیٹی اور نہ ہی کوئی پلاننگ سیل۔ دیگر سرکاری اداروں کے تھنک ٹینکس میں بھی ’’ان پٹ‘‘ لینے کی روایت زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ اب ملک میں بڑے پیمانے پر مباحث کی ضرورت ہے۔ سول سوسائٹی کے تھنک ٹینکس کو زیادہ سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ بعض افریقی ممالک میں ایسے تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی اداروں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مباحث انفرادی کے ساتھ ساتھ اداراتی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ ان مباحث کا مقصد یہ ہو کہ ہم کوئی حل تلاش کر سکیں۔ پالیسی سازی میں فکری ریاضت اور وسیع تر مشاورت شامل ہو تو پالیسیوں کی کامیابیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

تازہ ترین