• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روا روی میں لکھے گئے گزشتہ کالم میں عشق حقیقی کا ذکر آیا تھا جسے پڑھ کر کئی دوستوں نے فرمائش کی اس پر مزید روشنی ڈالی جائے جبکہ میرا جواب تھا کہ میں اس اہل نہیں۔ یہ موضوع اپنے اندر سمندر جیسی وسعت اور گہرائی رکھتا ہے جبکہ میرا علم نہایت سطحی ہے۔ ایک نوجوان کا فون قدرے دلچسپ تھا۔ اظہار ادب کے بعد پوچھنے لگا سر یہ عشق حقیقی کیا ہوتا ہے۔ مجھ سے کوئی بہتر جواب بن نہ پڑا… نوجوان کو سمجھایا کہ عشق حقیقی سے مراد سچا عشق ہے جبکہ عشق مجازی وقتی جذبہ ہوتا ہے جو اپنے رنگ بدلتا رہتا ہے۔ دراصل سادہ معنوں میں عشق مجازی دنیا کی چیزوں سے عشق ہوتا ہے جو دنیا کی چیزوں کی مانند ہی ناپائیدار اور وقتی ہوتا ہے۔ عشق حقیقی دراصل حقیقت سے محبت ہے اور حقیقت ابدی شے ہوتی ہے جو ہمیشہ زندہ یا موجود رہتی ہے۔ حُب الٰہی اور حُب رسول حقیقی ہیں جن کی نوعیت ابدی ہے جبکہ دنیا کی ہر شے مثلاً حُسن، دولت، اقتدار وغیرہ وغیرہ محض فریب نظر ہیں اور سب فانی ہیں یعنی فنا ہونے والی ہیں اس لئے عشق مجازی غیر حقیقی شے ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔ اسی لئے اسے ہوس سے تعبیر کرتے ہیں لیکن بعض اوقات عشق مجازی عشق حقیقی کی نہ صرف راہ ہموار کرتا ہے بلکہ اسے منزل تک بھی لے جاتا ہے۔ البتہ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں کیونکہ عام لوگ خوبصورت پھول دیکھ کر اسے سونگھنے اور مسلنے کے عادی ہوتے ہیں، اس کی حقیقت کو سمجھنا ہر کسی کا شوق نہیں ہوتا۔
عشق حقیقی کا خیال آیا تو مجھے ایک چھوٹا لیکن دراصل بہت بڑا واقعہ یاد آ گیا۔ چند ماہ قبل میں عمرے کے لئے گیا ہوا تھا۔ طواف کرنے کے بعد حطیم کے سامنے کھڑا گناہوں کی معافی اور رحم مانگ رہا تھا تو ساتھ سے ایک مدھم سی آواز میرے کانوں میں پڑی اور مجھے لرزا گئی۔ حطیم کے مقدس مقام پر کھڑے انسان کی عجیب روحانی قلبی اور ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ انسان اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑا گم سم سا ہوتا ہے۔ ایسے میں شاید ہی احساس رہتا ہو کہ آپ کے پڑوس میں کون کھڑا ہے اور اپنے رب سے کیا باتیں کہہ رہا ہے۔ لیکن یہ ایک منفرد سا لمحہ تھا کہ میرے پڑوس میں کھڑے حاجی کے منہ سے نکلنے والے الفاظ میرے کانوں کے راستے میرے باطن میں اتر گئے۔ اس شخص نے نہایت ملائمت، درد مندی اور روح کی گہرائیوں سے یہ الفاظ کہے ”میرے رب۔ میں نے دنیا کی تمام محبتیں تیری محبت پہ قربان کیں۔ میرے مالک! میں کمزور انسان ہوں۔ مجھے اپنے الفاظ پر پورا اترنے کی طاقت اور توفیق دے“ اگرچہ میں اپنے آپ میں گم تھا لیکن ان الفاظ نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ دراصل یہ عشق حقیقی کا ایک عظیم منظر اور روح افروز واقعہ تھا۔ میں نے رشک سے ان کی طرف دیکھا لیکن یوں محسوس ہوا جیسے انہیں اردگرد کی ہوش ہی نہیں۔ ایک لمحے کیلئے کرن پھوٹی اور مجھے حضرت رابعہ بصریٰ یاد آگئیں اور اس کے ساتھ ہی کتنے ہی اولیاء اکرام کے اسمائے گرامی لوح ذہن پر تڑپنے لگے۔ یہ وہ مبارک عظیم ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنی اپنی زندگیاں رضائے الٰہی اور قرب الٰہی کے حصول کے لئے عشق حقیقی کے سمندر میں غرق کر دیں اور انعام کے طور پر فنا کے بعد بقاء پا لی۔ رب کریم بہترین اجر دینے والا اور بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان دنیا کی تمام لذتوں سے کنارہ کش ہو کر زندگی رضائے الٰہی کے لئے گزار دے اور رب تعالیٰ اپنے سچے عاشق کو فنا کر دے۔ کیا یہ فنا ہے کہ ان ہستیوں کے مزارات پر چوبیس گھنٹے محبان اور عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہ صورتحال صرف پاکستان اور ہندوستان ہی میں نہیں میں نے دوسرے ممالک میں بھی عاشقان حقیقی کے مزارات اسی طرح آباد اور روح پرور دیکھے ہیں۔ میں نے شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب حضرت زینب کا مزار ہمہ وقت عقیدت مندوں کی محبت کا مرکز بنے دیکھا ہے۔ زائرین کی آنکھوں سے آنسوؤں کے نذرانے اور روح کے زخموں کو بے نقاب ہوتے دیکھا ہے۔ عشق حقیقی کے ایسے نمونے جہاں جہاں بھی ہیں، خلق خدا کی محبت کے شاہکار اور محور ہیں۔
عشق حقیقی کا ذکر چلا ہے تو نہ جانے کیوں مجھے دو عظیم ہستیاں بہت یاد آ رہی ہیں لیکن ان کا ذکر کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دراصل عشق رسول عشق الٰہی ہی کا پرتو ہے، یہی کہکشاں نور خدا کی منزل پہ لے جاتی ہے۔ مجھے جو دو عظیم ہستیاں یاد آ رہی ہیں وہ ہیں حضرت اویس قرنی اور حضرت بلال۔ وجہ نہ پوچھیں مجھے خود علم نہیں کہ اس ضمن میں یہ اسمائے گرامی کیوں میری نگاہوں کے سامنے آ کر ٹھہر گئے ہیں۔ حضرت اویس قرنی کے بارے مصدقہ لٹریچر کم کم دستیاب ہے لیکن حضرت شیخ علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش کی کتاب (کشف المحجوب ) نے ان کا مختصر ذکر کر کے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ آپ بھی پڑھیئے کہ کشف المحجوب زندہ کتاب ہے، صدیاں گزرنے کے باوجود اس کے الفاظ کی شمع روشن ہے اور بھٹکے ہوؤں کو صحیح راہ دکھائی ہے۔ حضرت شیخ علی ہجویری لکھتے ہیں ”حضرت اویس قرنی حضور نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں موجود تھے مگر ان کی حضور (ﷺ) سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپ کی والدہ ضعیفہ تھیں وہ ان کو چھوڑ کر نکل نہیں سکتے تھے اور دوسرے آپ کو حضور سے غائبانہ اس درجہ عشق تھا کہ وہ ڈرتے تھے غلبہ شوق سے حضور کے دیدار کی تاب بھی لا سکیں گے یا نہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ غزوہ احد میں حضور کے دانت مبارک شہید ہوئے ہیں تو آپ نے ایک ایک کر کے اپنے سارے دانت توڑ ڈالے کہ نہ جانے حضور کا کون سا دانت مبارک شہید ہوا ہو گا۔“ یہ ہے عشق حقیقی جو غائب رہ کر بھی حاضر رہتا ہے۔ حضرت شیخ علی ہجویری مزید لکھتے ہیں کہ” حضور کو بھی حضرت اویس سے غائبانہ محبت تھی“ اور انہوں نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم سے حضرت اویس کا حلیہ مبارک اور نشانیاں بتا کر فرمایا تھا ”جب تم اسے ملو تو میرا سلام دینا اور اس سے کہنا کہ میری امت کے حق میں دعا کرے۔“ اللہ اللہ۔ ذرا مقام ملاحظہ فرمایئے کہ حضور نبی کریم ان سے اپنی امت کے حق میں دعا کے لئے فرما رہے ہیں۔ بھائی یہ سارا عشق حقیقی ہی کا کارنامہ تھا ورنہ نبی آخر الزمان کو کسی سے دعا کی فرمائش کرنے کی ضرورت تھی؟
چنانچہ حضور کے وصال کے بعد جب حضرت عمر اپنے زمانہ خلافت میں حضرت علی کو ساتھ لے کر ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے حضرت اویس کے پاس جنگل میں گئے تو وہ نماز میں مصر وف تھے۔ ”فارغ ہوئے اور بزرگوں کو سلام کیا اور وہ نشانیاں اور علامات دکھائیں جو حضور نے صحابہ اکرام کو بتائی تھیں۔ ضروری باتیں ہو گئیں تو حضرت اویس نے فرمایا۔ آپ حضرات کو تکلیف ہوئی۔ اب واپس جاؤ، قیامت قریب آ گئی ہے۔ اب میں قیامت کے راستہ کا توشہ تیار کرنے میں مشغول ہوتا ہوں۔“ حضرت شیخ علی ہجویری نے حضرت اویس کا ایک قول نقل کیا ہے۔ پڑھیئے اور غور کیجئے ”یعنی سلامتی وحدت میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے کسی گوشہ میں غیر اللہ کا کوئی عمل دخل باقی نہ رہے، پوری زندگی ایک وحدت ہو۔“ یہ ہے عشق حقیقی…
طویل عرصہ قبل مجھے دمشق جانے کا موقع ملا تو میں نے خاص طور پر حضرت بلال اور حضرت زینب کے مزارات پر حاضری دی تھی۔ چند روز قبل مفتیٴ اعظم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی کتاب ”انبیاء کی سرزمین میں“ کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس حاضری کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اسلام لانے کی پاداش میں جتنے مظالم حضرت بلال پر ڈھائے گئے، ان کی مثال نہیں ملتی۔ مکہ مکرمہ کی چلچلاتی دھوپ، آگ کی مانند گرم ریت دہکتے انگاروں اور پتھریلی زمین پر لٹا کر آپ پر اس قدر ستم ڈھائے جاتے تھے کہ ان کا ظالم مالک تھک جاتا تھا لیکن حضرت بلال ایک ہی رٹ لگائے جاتے تھے احد احد یعنی اللہ ایک ہے۔ یہ عش حقیقی ہی تھا جو اتنے مظالم سہتا اور پھر معبود برحق ایک ہی ہے کا اعلان کئے جاتا۔ مولانا رفیع عثمانی کے بقول ”آنحضرت (ﷺ) کا ارشاد ہے، دین حق کے بارے میں سبقت لے جانے والے چار ہیں۔ عرب سے میں ہوں۔ روم (یورپ) سے صہیب ہیں، فارس (ایشیا ایران و عراق) سے سلمان ہیں اور حبشہ (افریقہ) سے بلال ہیں۔“ ذرا مقام ملاحظہ فرمایئے اس عاشق کا اور یہ مقام حضور نبی کریم نے بیان کیا تھا۔ عشق کا یہ اجر کہ تاجدار دو عالم نے حضرت بلال سے فرمایا ”میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی آہٹ سنی ہے۔ حضرت بلال نے عرض کیا میں نے کوئی اور ایسا عمل تو نہیں کیا البتہ رات دن جب وضو کرتا ہوں تو کچھ نہ کچھ نفل تحیتہ الوضو ضرور پڑھ لیتا ہوں“ (صفحہ 157) یہ ہیں وہ عشق کی منزلیں جنہیں عشق حقیقی کہا جاتا ہے۔ اس کی جھلک دیکھنی ہے تو عاشقان رسول کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرو۔ باقی انشاء اللہ پھر کبھی۔
تازہ ترین