سر زمین ِ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ چاروں موسم، برفانی و ریگستانی علاقے، دریا، سمندر، شادابی،زر خیزی ، معدنی وسائل اور سب سے بڑھ کر افرادی قوّت۔ گر چہ ہمارے ہاں وسائل ، سہولتوں کی کچھ کمی ہے، لیکن یہاں کے باسی سخت محنتی، جفاکش ، ذہین اورحوصلہ مند ہیں۔خاص طور پر وطن ِ عزیز اس حوالے سے انتہائی خُوش قسمت ہے کہ اس کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ وہ نوجوان جو باصلاحیّت ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی محبّت سے سر شار ہیں، جو نا مساعد حالات کے باوجود مسلسل آگے بڑھنے کے فن سے آشنا ہیں، جو اپنی کم زوریوں کو اپنے مقاصد کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے، جن کی لُغت میں ’’نااُمّیدی، ناکامی اورناممکن ‘‘جیسے الفاظ ہی نہیںہیں۔ اُن کی راہ میںچاہےکتنی ہی دشواریاں کیوں نہ آجائیں، وہ دَریا کی مانِنداپنا راستہ خُود بناتے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔عزم وحوصلے کی ایسی ہی ایک مثال کراچی کی 23 سالہ ’’سیّدہ رابعہ ‘‘ ہیں۔بہ ظاہر تو وہ تقریباً 3 فیٹ کی ہیں، مگر اُن کے خواب اور حوصلے کوہِ ہمالیہ سے بھی بلند ہیں۔ سنجیدگی، سادگی و خُود داری کا پیکر رابعہ نے رواں سال سافٹ ویئر انجینئرنگ کی سند حاصل کی ۔ وہ یونی وَرسٹی جانے کے لیےاپنے والدین کے ساتھ صبح چھے بجے گھر سے نکلتیں ، تو شام چھے بجے تک لَوٹتی تھیں۔ حصولِ علم کے لیےتین تین بسیں بدل کر جانا کوئی آسان بات نہیں، مگرجن کے سَروںپہ اپنی پہچان بنانے اور خود کو منوانے کا جنون سوار ہوتا ہے، پھر کوئی مجبوری اُن کی راہ میں حائل نہیں ہوپاتی۔ سیّدہ رابعہ کا کہنا ہے کہ ’’ہر قدم پہ اُنہیں شفیق اساتذہ اوراچھے دوستوں کا ساتھ نصیب ہوا۔وزیر ِ اعظم پاکستان، عمران خان اُن کی پسندیدہ ترین شخصیت ہیں اور رابعہ اُن سے ملاقات کی خواہاں ہیں۔ ‘‘وہ وزیر ِ اعظم کو بتانا چاہتی ہیں کہ معذور افراد کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کس قدر دُشوار ہے۔گزشتہ دنوں ہم نےنوجوان انجینئر ،سیّدہ رابعہ سے ملاقات کی، جس میں اُن کی زندگی، جدّو جہد ، خوابوں اور مستقبل کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔احوال ملاحظہ کیجیے۔
س : اپنے بارے میں کچھ بتائیے،والد ، والدہ کیا کرتے ہیں، کتنے بہن بھائی ہیں؟
ج: میرا تعلق کراچی کے ایک متوسّط گھرانے سے ہے۔پاپا اسٹیل مِلز میں جونیئر افسر اور ماما گھریلو خاتون ہیں۔ہم تین بہن بھائی ہیں، جن میں،میرا نمبر پہلا ہے۔بھائی سیکنڈ اِیئر میں ہے ،جب کہ بہن مائیکرو سیفلے (Microcephaly)نامی ایک بیماری میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے اُس کا سر چھوٹا رہ گیا اور ذہنی نشو و نما نہیں ہو پائی۔
س: پیدائشی طور پر پست قامتی کا شکار تھیں یا بعد میں کسی بیماری کی وجہ سے جسمانی نشو ونما رُک گئی؟
ج:مَیں پیدائشی طور پرہی ایسی ہوں۔ دَراصل ،میرے والدین آپس میں کزنز ہیں اور ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ میرے اوربہن کے بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ جینیاتی خرابی (Genetic Disorder)ہے۔ بچپن میں والدین نے بہت علاج کروایا، کئی ڈاکٹرز کو دِکھایا ، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔حالاں کہ ہم بہنوں کے علاوہ خاندان میں کوئی بھی کسی قِسم کی ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار نہیں ۔
س: گھر میں سے کس کےزیادہ قریب ہیں؟
ج: ویسے تو مَیں ماما اور پاپا دونوں ہی سے بہت قریب ہوں۔ وہ دونوں ہی میرا سہارا ہیں مگرماں کا تو کوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتااور میری ماماتو میری سب سے اچھی دوست بھی ہیں۔
س:اسکول جانا کس عُمر سے شروع کیا؟
ج: عُمر تو مجھے یاد نہیں، لیکن پہلے ہم کراچی کے علاقے، سُرجانی ٹاؤن میں رہتے تھے۔ اس لیے ابتدائی تعلیم وہیں ایک نجی اسکول سے حاصل کی، لیکن مَیں اُس اسکول میں بہت کم عرصہ زیر ِ تعلیم رہی، کیوں کہ پھر ہم لوگ اِسٹیل ٹاؤن منتقل ہوگئےاور میرا داخلہ علاقے کے ایک اسکول میں کروادیا گیاتھا، جہاں سے مَیں نے 2012ء میں اے-ون گریڈسےمیٹرک اور 2014ء میں ملیر کَینٹ کالج سے انٹر کیا۔
س: اسکول میں داخلے کےوقت کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: ماما بتاتی ہیں کہ جب وہ میرا داخلہ کروانے جا رہی تھیں، تو اُنہیں ڈر لگ رہا تھا کہ اسکول والے مجھے داخلہ دیں گے بھی یا نہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے دیکھ کر ’’اسپیشل اسکول ‘‘ میں داخل کروانے کا مشورہ دے دیں، لیکن خُوش قسمتی سےایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسکول والوں نے مجھے کُھلے دِل سے خُوش آمدید کہا کہ ’’بچّی بہت ذہین ہے۔‘‘ اس طرح مَیں نے عام بچّوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔
س: اپنے اسکول ،کالج کےدِنوں کے حوالے سے کچھ بتائیں؟ کیسی یادیں ہیں؟نیز اساتذہ کو کیسا پایا؟
ج:اسکول لائف تو بہت اچّھی تھی، مگر کالج کے دن زیادہ یاد گار نہیں رہے، کیوں کہ ِانٹر کے دوسال میرا پورا دھیان صرف تعلیم اور اسی بات پہ مرکوز تھا کہ کسی بھی طرح نمایاں گریڈز آجائیں اور میرا داخلہ کسی اچھی انجینئرنگ یونی وَر سٹی میں ہوجائے۔البتہ، مَیں اِس بات کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گی کہ زمانۂ طالب علمی کی ہر سطح (اسکول، کالج، یونی وَرسٹی)پر مجھے بہترین ساتھیوں اور اساتذہ کا ساتھ میسّر رہا۔ میرے لیے وَین یا کسی سواری پر سوار ہونا اور اُترنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ والدین وَین میں سوار تو کروادیتے تھے ، لیکن وَین سے اُترنے سے کلاس میں جانے تک ، مَیں نے اپنے ساتھیوں کو ہر لحظہ اپنا مدد گار و معاون پایا۔کوئی بستہ اُٹھاتا، تو کوئی کینٹین لے کر جاتا، کوئی وَین میں سوار کرواتا، تو کوئی سہیلی سیڑھیوں پر میرا ہاتھ تھام لیتی کہ کہیں مَیںگِر نہ جاؤں۔ ایسا ہی مشفقانہ رویّہ اساتذہ کا بھی تھا۔نہ کبھی اُنہوں نے مجھ پر ترس کھایااور نہ ہی مجھے نظر انداز کیا، بلکہ میرے ساتھ کلاس میںموجود دیگر نارمل بچّوں ہی کی طرح پیش آئے۔ اگروہ ایسا نہ کرتے، تو شاید مجھ میں خُود اعتمادی کبھی پروان نہ چڑھ پاتی۔
س: یونی وَر سٹی کے بھی کچھ تجربات شیئر کریں؟
ج: الحمدُللّہ ، اللہ تعالیٰ نے مجھے ذہن ِ رسا عطا کیا ہے، لہٰذا تعلیمی معاملات میں تو کبھی کسی بھی قِسم کی مشکلات یا دُشواریوں کا سامنا نہیں کرناپڑا، البتہ سفری پریشانیوں نے پاؤں کی بَیڑیاںبننے کی کوشش کی اور مشکلات میں بھی اِضافہ کیا۔ اسکول، کالج میں تو ٹرانسپورٹ کی سہولت میسّر تھی ، لیکن یونی وَرسٹی کے ابتدائی سیمسٹرز میں یہ سہولت نہ ہونے کے باعث مَیں نے اور میرے والدین نے بہت مشکل وقت گزارا۔ چوں کہ ہمارا گھرشہر سے کافی دُور ہے، تو یونی وَرسٹی آمد و رفت کے لیے تین، تین بسیں بدلنا پڑتیںاور ماما ،پاپامیں سے کسی ایک کی موجودگی میرے ساتھ لازمی ہوتی تھی، کیوں کہ میرے لیےبس پہ بِناکسی سہارے چڑھنا اُترنااور سڑک پار کرناممکن نہیں۔سو، جب تک یونی وَرسٹی جانے کے لیے وَین کا بندوبست نہیں ہوا، تب تک مَیں اور میرے والدین کافی پریشانی میں مبتلا رہے۔ہم لوگ صبح 6 بجے گھر سے نکلتے اور شام 6 بجے تک واپس آتے ، اِس دَوران ماما یا پاپا میرے ساتھ یونی وَرسٹی ہی میں بیٹھے رہتے۔مگر مَیں جب کبھی اُن سے کہتی کہ میری وجہ سے آپ کا اتنا وقت ضائع ہوتا ہےاور تھکاوٹ ہوجاتی ہے، تو وہ کہتے ’’کوئی بات نہیں، اِسی بہانے ہمارا یو نی وَرسٹی جانے کا اَدھوراخواب پورا ہو رہاہے۔تم یہ سب باتیں مت سوچو، تمہاری توجّہ کا محور و مرکز صرف اور صرف تعلیم ہونی چاہیے۔‘‘
س: اپنے ہم عُمربچّوں کو کھیلتا کودتا دیکھ کر کیا خیال آتا تھا؟
ج: مجھے کھیل کُود سے دِل چسپی ہی نہیں تھی، اس لیے کبھی احساس بھی نہیں ہوا کہ میں دیگر بچّوں کی طرح بھاگ دَوڑ نہیں سکتی، اس لیے کوئی احساس ِ محرومی نہیں ہے۔
س:انجینئرنگ کے لیےکمپیوٹر /انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کا انتخاب کیوں کیا؟
ج: مجھے بچپن ہی سے کمپیوٹر کے مضمون میں دِل چسپی تھی ۔ علاوہ ازیں،اس شعبے کےچُناؤ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انفار میشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں مجھے چلنا پھرنا نہیں پڑے گا۔ مَیں بیٹھے بیٹھے بآسانی تمام کام انجام دے سکتی ہوں۔
س: نجی یونی وَر سٹی میں پڑھنا آسان نہیں ہوتا، اخراجات کیسے پورے ہوتے تھے؟
ج: خاندان کے تمام افراد نے بہت تعاون کیا، وہ پاپا سے ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ’’رابعہ کی تعلیم اَدھوری نہیں رہنی چاہیے۔‘‘اس کے علاوہ یونی وَر سٹی انتظامیہ نے میرا بھر پور ساتھ دیا۔ گارڈ سے لے کر وائس چانسلر تک سب نے بے حد تعاون کیا۔ اِسکالر شپ بھی ملی، جس کی وجہ سے اخراجات بہت حد تک کم ہوگئے۔
س: کئی نوجوان ٹیوشن پڑھا کر اپنے چھوٹے موٹے اخراجات پورےکرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ نے بھی ٹیوشن پڑھائی ؟
ج: اِنٹر کے بعد کچھ دنوں کے لیے فارغ تھی ، تو محلّے کے چند بچّے ٹیوشن پڑھنے آنے لگے تھے، لیکن یو نی وَر سٹی میں داخلے کے بعد وقت ہی نہیں بچتا تھا، جو ٹیوشن پڑھاتی۔
س: مصروفیات کیا ہیں؟پڑھائی کے علاوہ دِن بھر کیا کرتی ہیں، کوئی پسندیدہ کتاب؟
ج: مجھے ’’ای لرننگ‘‘(آن لائن لرننگ) اور سرچنگ کا بہت شوق ہے۔ فارغ اوقات میںآئی ٹی میں ہونے والی جدید تحقیق اورجس کورس میں کم نمبرز آئے تھے،اُس سے متعلق پڑھتی ہوں تاکہ اپنی کم زَوریوں پہ قابو پاسکوں۔ایک انگریزی کتاب ’’The diary of a young girl‘‘ اور اُردو میںہاشم ندیم کا ناول ’’بچپن کا دسمبر‘‘ بہت پسند ہیں۔
س: اپنے مستقبل کے حوالے سے کیا سوچتی ہیں؟
ج: مستقبل کے لیے بہت پُر امّید ہوں۔ ملازمت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ گرچہ آج سیکڑوں انجینئرز تلاش ِ معاش میں دَر بہ دَر پھر رہے ہیں،اس حوالے سے تھوڑے خدشات تو ہیں ، لیکن مَیں نے کئی جگہ اپلائی کیا ہے، اب دیکھیں،کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
س:کیا ہمارے مُلک میں خصوصی بچّوں یا کسی طرح کی معذوری میں مبتلا افراد کے لیے آگے بڑھنے کے بہتر مواقع موجود ہیں؟
ج: مواقع کے متعلق تو مَیں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتی، لیکن ایک بات کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گی کہ یہاں معذور افراد کے لیے مناسب سہولتیں نہیں ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک میں معذور افردا کو سفری سہولتیں دی جاتی ہیں، اُن کے لیے علیحدہ ریمپس بنائے جاتے ہیں، تاکہ وہ بآسانی اُتر، چڑھ سکیں، تعلیمی اِداروں میں ریمپس اور ریستورانوں میں علیحدہ کاؤنٹرز ہوتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی آسانی میسّر نہیں۔جب مَیں کسی ہوٹل یا ریستوران جاتی ہوں، توپست قد ہونے کی وجہ سے اپنا آرڈر خُود نہیں دے پاتی، پبلک ٹوائلٹس میں واش بیسن تک ہاتھ نہیں پہنچ پاتا اورکپڑوں کے آؤٹ لَیٹ جاؤں تو میرے ناپ کے کپڑے نہیں ملتے، تب یہ خیال مجھےسخت تکلیف دیتا ہے کہ ’’کاش میرا قد بھی لمبا ہوتا۔‘‘مَیں ڈیزائنرز تک اپنی آواز پہنچانا چاہتی ہوںکہ میرے جیسے قد کاٹھ والوں کے لیے بھی کپڑے بنایا کریں۔کئی مرتبہ مجھے کوئی جوڑا یا شرٹ پسند آتی ہے، لیکن سائز اور بناوٹ تبدیل نہ ہو سکنے کے باعث دِل مارنا پڑتا ہے۔
س: آپ کے ساتھ لوگوں کا رویّہ کیسا ہوتا ہے، نیز کسی شخصیت سے متاثر ہیں؟
ج: عام طور پر تو لوگوں کا رویّہ اچھا ہوتا ہے۔ وہ میرے پاس آتے، مجھے خُوب سراہتے ہیں، لیکن کچھ لوگ بالخصوص بچّےمذاق بھی اُڑاتے ہیں۔ تاہم، مجھے بُرا نہیں لگتا، کیوں کہ وہ تو بچّے ہیں اُنہیںکیا سمجھ کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ مشہور پینٹر، ماڈل و میزبان ،منیبہ مزاری کی شخصیت مجھے بہت متاثر کرتی ہے۔ اُنہوں نے کبھی اپنی وہیل چیئر کو کم زوری نہیں سمجھابلکہ اسے ’’و ِنگز‘‘ کا نام دیا۔ منیبہ کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ نا ممکن کچھ نہیںاور ہمیں ہمیشہ آگے بڑھنے کی جستجو کرتے رہنا چاہیے۔
س: جب مایوس یا اُداس ہوتی ہیں، تو کیا کرتی ہیں؟
ج: (مُسکراتے ہوئے)مَیں کبھی مایوس نہیں ہوتی، کیوں کہ مایوس وہ ہوتے ہیں، جنہیں اللہ کی ذات پر بھروسانہیں ہوتا اور مجھے اپنے مالک پر پورا یقین ہے کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے۔یوں بھی ناکامی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ ناکامی مستقبل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ مزید محنت کی وجہ بنتی ہے۔
س:آج کا نوجوان بہت جلد مایوس ہوجاتا ہے، ساتھی نوجوانوں سے کچھ کہنا چاہیں گی؟
ج: بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ ’’مایوسی ، نا اُمّیدی اور ناممکن‘‘جیسے الفاظ اپنی لُغت سے نکال دیں۔ دُنیا میں کوئی کام ایسا نہیں، جو ہم نہیں کر سکتے، اگرسخت محنت اور بار بارکوشش کے بعد بھی کام یابی ملنے میں تاخیر ہو رہی ہے، تو اللہ پہ بھروسا رکھیں۔ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
س: مشکل حالات کے باوجود وہ کون سے عوامل تھے، جنہوں نے آپ کو مسلسل آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور آپ کی سب سے بڑی طاقت کیا ہے؟
ج: مَیں اپنے بہن ، بھائی کے لیے ’’رَول ماڈل‘‘ بننا چاہتی تھی۔ اُنہیں دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آتا کہ مَیں آگے بڑھوں گی اوروالدین کا نام روشن کروں گی، تو وہ بھی میرے نقش ِ قدم پر چلیں گے۔ اور میرے والدین ، میری سب سے بڑی طاقت ہیں۔
جس رِزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی…
یونی وَر سٹی میں ہرایک کا رویّہ شان دار، مثالی تھا۔ مَیں کَینٹین سے لنچ لینے جاتی تو کینٹین والے انکل مجھ سے پیسے نہیں لیتے تھے۔ تاہم، مجھے یہ گوارا نہ تھا، مَیں بھی دیگر طلبہ کی طرح ہوں۔گرچہ وہ کسی احسان کے تحت نہیں بلکہ شفقت سے ایسا کرتےتھے اور مَیں اُن کے جذبات کی قدر بھی کرتی ، مگرمَیں کبھی ایسا کوئی کام نہیں کرسکتی تھی ، جس سے میری عزّت ِ نفس مجروح ہو۔اسی وجہ سے مَیں نے یو نی وَرسٹی میں لنچ کرنا ہی بند کردیا۔کچھ دِنوں تک تو یہ سلسلہ جاری رہا،پھر چند دن بعد میری سہیلیوں نے کہا کہ ’’تم ہمیں پیسے دے دیا کرو، ہم تمہارا لنچ لے آئیں گے۔‘‘ اور اس طرح یو نی وَرسٹی میں میری ’’بھوک ہڑتال ‘‘ختم ہوئی۔