• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تماش بینی کا شوق ہے ، مجمع بازی کا،یا رُو میں بہہ جانے کا خودکش رویہ، کہ جہاں ہجوم دیکھا، کھڑے ہوگئے یا شاید ایک بے یقینی ہے ، ایک خضر کی تلاش ہے کہ اس ادبار سے نکلنے کی راہ دکھائے۔ جس نے ذرا آس دلائی اس کی طرف رخ کیا۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ہوتا ہی رہا،کئی بار ہوا۔کئی مختلف کردار آئے،پھلجڑی چھوڑی، تماشہ لگایا، قوم اس تماشے کے پیچھے لگ گئی۔ اب بھی یہی ہوا ہے۔ صبح شام ایک ہی موضوع پر وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ کیوں آئے ہیں؟ ایجنڈا کیا ہے؟جمہوریت پٹڑی سے اتارنے تو نہیں آئے؟ اتر تو نہیں جائے گی؟ طویل عرصہ سے یہ تماشے ہورہے ہیں۔ قوم اتنی سادہ ہے کہ ہردفعہ تماشہ دیکھنے میں لگا لی جاتی ہے۔ ازبکستان کے شہر تاشقند میں جنگ بندی کی میز بچھائی گئی، معاہدہ ہوا، کئی معاملات طے ہوئے، یہ معاہدہ تاشقند کہلایا۔ ہونے کو تو یہ ایک جنگ میں ملوث، مبتلا دو ملکوں کے درمیان معاہدہ تھا مگر اس کے تھیلے میں ایک بلی ڈال دی گئی۔ اب یہ اتفاق ہی تھا کہ بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری تاشقند سے واپس دہلی جاتے ہوئے حرکت قلب بند ہو جانے سے پرلوک سدھار گئے۔ اس اتفاق کو کئی معانی پہنائے گئے، اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔
کہا گیا کہ معاہدہ تاشقند میں کچھ اور شقیں بھی ہیں، خفیہ اور وہ بھارت کے حق میں ہیں۔ شاستری نے اسی خوشی میں جان دی ہے، ان سے خوشی سنبھالی نہیں گئی۔ مجمع لگایا گیا، جلسے ہوئے، ہوتے رہے، ہر بار لگتا تھا اب معاہدہ تاشقندکی بلی تھیلے سے باہر آجائے گی۔ تماش بین جمع ہوتے، انتظار کرتے،دھواں دھار تقریر ہوتی،تقریر کرنے کے تو ذوالفقار علی بھٹو بادشاہ تھے۔ جذبات ابھارنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔ اس کمال کا انہوں نے خوب خوب استعمال کیا، معاہدہ تاشقند کو خوب لتاڑا۔ لگتا تھا درپردہ حقیقت ان کے علم میں ہے اور وہ اسے عوام کے سامنے لائیں گے۔ حقیقت اب سامنے آئی کہ تب سب سامنے آئی۔ مجمع تھا کہ ہر بار اکٹھا ہوجاتا، منتظر رہتا کہ سابق وزیرخارجہ اب تو بتا ہی دیں گے کہ معاہدہ تاشقند کے پس پردہ کیا ہوا، تقریر ختم ہوجاتی بلی تھیلے سے باہر نہیں آتی۔ اگلی تقریر میں بھی ایسا ہی جوش و خروش،ایسا ہی ہجوم اور ایسا ہی انتظار، بس انتظار… بلی ان جلسوں میں باہر آئی، نہ آج تک نکل سکی۔ تماشہ لگتا تھا اور تماش بین جمع ہوتے۔ ہمت اتنی کہ مایوس نہیں ہوتے یا توقعات تھیں، حقائق جاننے کی، یہ توقعات کبھی پوری نہیں ہوئیں، ہوبھی نہیں سکتی تھیں۔ مجمع بازی تھی، تماش بین جمع کرنے کا ہنر تھا۔
اس سے ذرا بعد، اس زمانے کے لوگوں کو یاد ہوگا۔ ایک خاتون وارد ہوئیں۔ ان کا بچہ ابھی پیدا نہیں ہوا تھا مگر اذان دیتا تھا،آواز سنائی بھی دیتی تھی، بہت لوگوں نے سنی۔ ان خاتون کی بڑی پذیرائی ہوئی، اعلیٰ حکومتی حلقوں میں بھی انہیں مدعو کیا گیا۔ ٹھیک سے یاد نہیں مگر شاید کسی نماز کی امامت بھی یار لوگوں نے اس خاتون یا بچے سے کرا دی ۔ ایک تماشہ تھا کہ ہر ایک اس کے پیچھے لگ گیا۔ ہر ایک اذان سنتا تھا۔ ہر ایک اس ”معجزے“ پر یقین کی حد تک اعتماد کرتا تھا۔ تماشے کی شوقین قوم کیلئے یہ تماشہ کئی دن جاری رہا۔ پاکستان میں بھی اور کئی دوسرے ملکوں میں بھی۔ انڈونیشیا سے آئی خاتون نے خوب مجمع اکٹھا کیا اور بالآخر پکڑی گئی۔ ڈاکٹروں نے اس کے جسم سے ایک چھوٹا ٹیپ ریکارڈر تلاش کرلیا۔ یوں یہ تماشہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ مجمع ہاتھ جھاڑ کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگیا،کسی اور تماشہ کے انتظار میں ۔ تماشے بہت۔ حیدرآباد میں ایک صاحب نے ’مطب‘ کھولا ذیابیطس کا علاج کرتے تھے، شکر سے !! چند دنوں میں اتنی شہرت پائی کہ پورے ملک سے لوگ علاج کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ ذیابیطس کا علاج،وہ بھی مفت… حیدرآباد میں باہر والوں کی آمدورفت اتنی بڑھی کہ رشتہ دار تنگ آگئے۔ کتنے لوگوں کو آدمی اپنے گھر میں رکھے،کب تک رکھے۔ پریشانی اپنی جگہ، مجمع تھا کہ بڑھتا جارہا تھا۔ وہ وقت بھی آیا کہ ایک دن سرے گھاٹ سے گڈز ناکہ تک ایک طویل قطار لگ گئی۔ اتنی لمبی قطار حیدرآباد میں پہلے کبھی لگی نہ بعد میں، کبھی لگ ہی نہیں سکتی۔ یہ کئی میل لمبی تھی، شہر کے ایک طرف سے دوسری طرف تک۔ اتفاق کچھ ایسا ہوا کہ اسی دن یہ تماشہ ختم ہوگیا، اچانک… اور ساتھ ہی یہ اطلاعات ملیں کہ ذیابیطس کے بہت سے مریض اس مجمع باز کے علاج کے بعد بدپرہیز ی کے مرتکب ہوئے اور اپنے اعضا سے ہاتھ دھوبیٹھے۔نہ معالج کو مرض کا پتہ تھا نہ مریض کو دوا کا، ایک ہجوم تھا ، تماش بینوں کا، بکھر گیا، نقصان اٹھاکر۔
کئی اور بھی آئے مجمع لگانے۔ کسی نے بے انتہا، غیر منطقی حد تک زیادہ منافع کا تماشہ لگایا۔ قوم لالچ میں آگئی، مجمع لگا، منافع ملنے بھی لگا۔ مجمع اور بڑھا۔ مگر کب تک ؟مجمع باز زنداں کی نذر ہوا، سرمایہ کارہاتھ ملتے رہ گئے۔ مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے اسی طرح عوام کو بیوقوف بنایا۔ خود رخصت ہوگئے، لوگوں کو ہاتھ ملتے چھوڑ گئے۔ تماش بینی کا شوق، بہت سوں کو لے ڈوبا، ہوش پھر بھی نہ آیا۔اب بھی ہوش نہیں آیا۔ جہاں مجمع دیکھا ،ادھر کا رخ کرلیا۔ جس نے تھیلا دکھایا اس میں سے بلی نکلنے کی آس لے کر ہجوم کردیا۔ یہ عام آدمی کا رویہ ہے مگر وہ جو عامی نہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاتھ قوم کی نبض پر ہیں، جو اندر باہر کا حال جانتے ہیں، وہ بھی بہہ گئے۔ صبح سے شام تک وہی ایک داستان، وہی ایک داستان گو۔ ہرجگہ ، ہراخبار میں، ہر چینل پر۔ جسے دیکھیں اسی ایک موضوع پر بحث کر رہا ہے، ان کو مدعو کر رہا ہے، پندرہ دفعہ کسی الزام کی تردید کا تو انہوں نے خود تذکرہ کیا۔ان کے فرمودات پر جو رائے زنی کی گئی ، جو خامہ فرسائی کی گئی، صبح سے شام تک قوم کو جس جنون میں مبتلا رکھا گیا، رکھا جا رہا ہے، وہ اس کے علاوہ ۔ ان کے اپنے تماشہ، ان کے اپنے تماش بین۔ کبھی میمو اسکینڈل، کبھی ارسلان کا معاملہ (اس کا کیا ہوا؟)، کبھی کچھ اور۔ بس تماشہ کے لئے کوئی بہانہ ملا اور یہ کاتا اور لے دوڑی کے مصداق اس کے پیچھے لگ گئے۔ مجمع بازی کا تماش بینی کا وہی شوق جو لگتا ہے، قوم کی عادت ثانیہ بنادی گئی ہے، سب اسی میں لگ گئے۔ بات بس اتنی ہے کہ ایک پائیڈ پائپر آیا ہے، اپنی بانسری بجا رہا ہے، سب کو اس کے پیچھے لگنا چاہئے یا نہیں، کسی نے نہ سوچا، سب اسی ایک راہ پہ آنکھ بند کر کے لگ لئے۔ اگر ایک بڑے اجتماع کی شکل میں عام لوگ جمع ہو گئے تھے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی مگر سوچے کون۔ سب یا اس تماشے کا حصہ بن گئے یا دہل گئے۔ ایک ہلچل مچی، سب ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئے، ایک فرد واحد نے ان ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا جہاں اس کا اثرورسوخ پہلے تھا نہ کبھی ہوگا۔ جو لوگ ایک پائیڈ پائپر کے ساتھ لگے ان میں سے کچھ کے حواس جلد بحال ہوگئے، باقی ابھی مخمصے میں ہیں۔ انہیں بھی جلد عقل آجائے گی یا شاید نہ آئے، توقع تو کی جاسکتی ہے اور اس ساری ہلچل کی وجہ صرف یہ ہے کہ اداروں کو مضبوط نہیں کیا گیا۔ ہر بار جب جمہوریت کا درخت ابھی جڑیں پکڑنا شروع کرتا تھا کہ ظالم آمر سنگینوں سے انہیں اکھاڑ پھینکتے تھے اور ایسے ہی مجمع باز، تماشہ دکھانے والے ان کے مددگار ہوتے تھے ۔ اب بھی جمہوریت کا درخت جڑیں پکڑنا شروع کر رہا ہے کہ اکھاڑنے والے یا ان کا ساتھ دینے والے، طوفان اٹھانے والے آگئے ہیں۔ مگر اب یہ سازش کامیاب نہیں ہو گی، عوام اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بتنگڑ ضرور بنا مگر بات صرف اتنی تھی، وہ آیا، اس نے جلسہ کیا … اور وہ واپس چلا گیا یا جلدی چلا جائے گا، تماش بینوں کو حیران اور پریشان چھوڑ کر۔ دل اس بات سے دھڑکتا ہے کہ شاید یہ آخری بار نہیں ہے۔ جیسے ہی پھر کسی کو ضرورت ہوئی، پھر کوئی آئے گا، بلالیا جائے گا۔ مجمع لگانے، قوم کو تماشے میں الجھانے ، تماش بینی کا چسکا لگانے۔ وہ قوم کو ایک ہیجان میں مبتلا کرے گا، قوم کچھ دن اس کی سحر بیانی میں مسحور رہے گی پھر وہ بھی چلا جائے گا، تماش بینوں کو ہاتھ ملتا چھوڑ کر۔ اور دل اس لئے بھی دھڑکتا ہے کہ وہ جن کے ہاتھ قوم کی نبض پر ہیں خود کبھی رہبر اور رہزن میں تمیز کر سکیں گے۔
تازہ ترین