• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شدت پسندی کا خاتمہ، ترقی و استحکام کے لیے ناگزیر

شدت پسندی کا خاتمہ، ترقی و استحکام کے لیے ناگزیر
وزیرِ مملکت برائے داخلہ، شہریار آفریدی اور سیکریٹری داخلہ، سلیمان خان پریس کانفرنس کرتے ہوئے

پاک، بھارت کشیدگی میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور جنگ کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے۔ تنائو میں تخفیف پر یوں تو دونوں ممالک کی حکومتوں نے بھی سُکھ کا سانس لیا، لیکن سب سے زیادہ اطمینان پاکستان اور بھارت کے عوام کے چہروں پر نظر آیا، جس سے پتا چلتا ہے کہ برِ صغیر کا کوئی بھی ہوش مند فرد جنگ کا حامی نہیں، جب کہ ذرایع ابلاغ پر ہونے والے تبصروں، تجزیوں میں شہریوں نے صرف اپنی معلومات میں اضافے کی حد تک دِل چسپی لی۔ خطّے کے مسائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ عالمی برادری بالخصوص امریکا نے حالات معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو نے پس پردہ سفارت کاری کے ذریعے کشیدگی کو بڑھنے سے روکا اور پاکستانی وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے اس کا کُھل کر اعتراف کیا۔ یاد رہے کہ پاک، بھارت تنائو کم کرنے میں امریکا ہمیشہ پیش پیش رہا اور اس مرتبہ واشنگٹن نے نجی سفارت کاری کو استعمال کیا۔ اس کے علاوہ چین، رُوس، یورپ اور اسلامی ممالک بھی متحرک نظر آئے اور ہر ایک ہی نے دونوں ممالک کو جنگ سے گریز کا مشورہ دیا۔ آج دُنیا جس تیزی سے ترقّی کر رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی مُلک کسی بھی خطّے میں جنگ یا شورش نہیں چاہتا، کیوں کہ سرگرمیاں معطّل ہونے سے سبھی کا نقصان ہوتا ہے۔ پھر اس وقت جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک بھی کسی صُورت یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کا سرمایہ جنگ کے شعلوں کی نذر ہو جائے۔ ترقّی کی بنیادی شرط امن ہے اور اس کا انحصار دونوں ممالک کی قیادت پر ہے کہ وہ اپنی فہم و فراست کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح اپنے عوام کو جنگ کے ماحول سے دُور رکھتے اور ان کی توانائیوں کا رُخ تعمیری کاموں کی جانب موڑتے ہیں۔

دوسری جانب حالات معمول پر آتے ہی پاکستانی حکومت کاشدّت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ اور اس ضمن میں وزیرِ مملکت برائے داخلہ، شہر یار خان آفریدی، وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی اور وزیرِ اطلاعات، فوّاد چوہدری کے تفصیلی بیانات سامنے آئے۔ مُلک میں شدّت پسندی کا مسئلہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کی حکومت سےجُڑا ہوا نہیں، بلکہ عالمی برادری گزشتہ کئی برسوں سے اس کے تدارک کے لیے پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے اور ہر نئی حکومت کو نہ صرف اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر کڑے سوالات کا جواب بھی دینا پڑتا ہے۔ ان پلیٹ فارمز میں اقوامِ متّحدہ سے لے کر ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) تک جیسے سلامتی و اقتصادی امور کے اہم ترین ادارے شامل ہیں۔ تاہم، یہ معاملہ صرف ان دو اداروں ہی تک محدود نہیں، جسے عام طور پرایک طبقہ مُلک کو کم زور کرنے کی عالمی سازش قراردےکرنظرانداز کرنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ ماہرین اس اَمر کی جانب توجّہ دلاتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں جتنے بھی کثیر المُلکی اجلاس یا دو طرفہ روابط ہوئے، اُن کے اعلامیے میں شدّت پسندی کو جڑ سے اُکھاڑنے کا مطالبہ کیا گیا اور غیر ریاستی عناصر کی پناہ گاہ سمجھی جانے والی ریاستوں پر شدّت پسند تنظیموں کو ختم کرنے کےلیے زور دیا گیا۔ بد قسمتی سے اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے سبب اس دوران ڈھکے چُھپے الفاظ میں پاکستان کا بھی ذکر کیا گیا۔

شدّت پسندی کے خاتمے کی اہمیت واضح کرنے کے لیے ہم یہاں صرف چند مواقع کا حوالہ دیں گے، جنہیں مقامی ذرایع ابلاغ میں خاصی کم اہمیت دی گئی۔ رواں برس کے پہلے دو ماہ کے دوران دُبئی میں تین اہم اجلاس منعقد ہوئے، جن میں متعدد ممالک کےنمایندوں نے شرکت کی۔ فروری کے اوائل میں کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا، پوپ فرانسس نے متّحدہ عرب امارات کا دورہ کیا، جسے بین المذاہب ہم آہنگی کے اعتبار سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔ اس موقعے پر پوپ فرانسس نے جہاں مختلف مذاہب اور معاشروں کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیا، وہیں شدّت پسندی کو ہر ایک کے لیے ناقابلِ قبول قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لیکن اسے ختم کرنے کی ذمّے داری تمام مذہب کے ماننے والوں پر عاید ہوتی ہے۔ پوپ فرانسس نے جس اجتماع سے خطاب کیا، اس میں اسلام سمیت دُنیا کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے اسکالرز، دانش وَر اور دیگر اہم شخصیات شامل تھیں اورسب نے اُن کے اس مؤقف کی کُھلے دل سے حمایت کی۔ دوسرا اجلاس، جس میں وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان نے بھی شرکت کی، اقتصادی امور سے متعلق تھا۔ اس میں سرمایہ کاری کے لیے امن و امان کو بنیاد قرار دیا گیا۔ اس موقعے پر عمران خان نے پاکستان کے سیّاحتی مقامات کی خوبیاں گِنواتے ہوئے کہا کہ یہ دھرتی سِکھ مت اور بودھ مت سمیت دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لیے باعثِ کشش ہے۔ اس کے بعد 22فروری کو چین میں چین، رُوس اور بھارت کے وزرائے خارجہ کا 18واں سہ فریقی اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں بھی شدّت پسندی کو جڑ سے اُکھاڑنے پر زور دیا گیا، جب کہ 27اور 28فروری کو او آئی سی کا اجلاس ہوا اور اس کے اعلامیے میں بھی شدّت پسندی کے خلاف ٹھوس اقدامات کا عزم ظاہر کیا گیا۔ خیال رہے کہ تب پاک، بھارت کشیدگی عروج پر تھی اور بعد ازاں چین و رُوس نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں ہی کو تحمّل کا مظاہرہ کرنے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات طے کرنے کا مشورہ دیا۔ اس موقعے پر چین کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ہمارے دوست ہیں اور امید ہےکہ یہ بات چیت کا راستہ اختیار کریں گے۔

پاکستان کی خارجہ اور اقتصادی پالیسی کے لیے شدّت پسندوں کے خلاف کارروائی کس قدر اہمیت اختیار کرچُکی ہے، اس کااندازہ حکومت کے مذکورہ بالا فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں، ان کے ذیلی اداروں اور کارکنان کےخلاف کارروائیاں ماضی میں بھی ہوتی رہیں، لیکن یہ تنظیمیں پابندی لگنے کے بعد کسی دوسرے نام سے دوبارہ فعال ہو جاتی ہیں۔ اس کے سبب ان تنظیموں کے زیرِ اثر علاقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یا تو ریاستی ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں یا ریاست کی رِٹ ہی موجود نہیں۔ نیز، چُوں کہ ان کی کوششیں نیم دِلانہ ہوتی ہیں، لہٰذا شدّت پسندی کو مزید تقویّت ملتی ہے اور اس کے اثرات بھی پھیل جاتے ہیں۔ مقامی طور پر تو یہ سوچ کر دِل کو تسلّی دی جا سکتی ہے کہ شدّت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، لیکن بین الاقوامی طور پر اس وقت بھی پاکستان کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ میں ہے اور یہ اس کی بدنامی کا باعث ہے، جب کہ پاکستان کو رواں برس مئی تک شدّت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی گئی ہے، وگرنہ اس کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ امریکا، اسرائیل یا بھارت کی سازش نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا معمولی مسئلہ ہے کہ جسے ٹال دیا جائے، بلکہ یہ خالصتاً عالمی معاملہ ہے، جو براہِ راست ہماری معیشت اور امورِ خارجہ سے منسلک ہے۔ آج ہم جس قسم کے اقتصادی بُحران سے گزر رہے ہیں اور جس طرح ہمارے وزیرِ اعظم کو قرضوں کے لیے در در جانا پڑ رہا ہے، تو ان عوامل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمارا ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونا اور اقتصادی پابندیوں کی زد میں آنا مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہوگیا، تو دوست ممالک کے لیے بھی ہماری سر زمین پر سرمایہ کاری کرنا، ہمیں قرضے فراہم کرنا یا مؤخر قیمتوں پر تیل سمیت دوسری اشیا فراہم کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر یہ عمل ہماری درآمدات و برآمدات پر بھی بُری طرح اثر انداز ہو گا، جب کہ ہمارا توازنِ ادائیگی پہلے ہی دبائو کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی ماہرین بار بار حکومت کی توجّہ اس اَمر کی جانب مبذول کروا رہے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کن نکات پر زیادہ زور دیتی ہے؟ یہ ادارہ دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی اوران کی فنڈنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ پھر چُوں کہ یہ منی لانڈرنگ کے تدارک کے لیے کیے گئے اقدامات کی نگرانی بھی کرتا ہے، لہٰذا یہ بھی دیکھتا ہےکہ مختلف ممالک میں اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کتنے مؤثر ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اب ہم ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پر عمل درآمد میں بالکل بھی تاخیر نہیں کر سکتے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس، ایکشن لینے میں پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ پاکستان کی جانب سے ایک طویل عرصے تک یہ کہا جاتا رہا کہ چُوں کہ ہمارے مُلکی قوانین انگریز دَور کے ہیں اور ان میں ایسے سُقم پائےجاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے شدّت پسند تنظیموں کے خلاف کاروائی ممکن نہیں۔ چوں کہ ان قوانین کی رُو سے فنڈنگ وغیرہ کےثبوت فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا، لہذا ملزمان گرفتاری کےچند ماہ بعد ہی عدم ثبوت کی بنا پر بَری ہو جاتےہیں۔ تاہم، اب ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت کی آئینی ترامیم کے بعد پاکستانی قوانین تسلّی بخش ہیں اور ان کے ذریعے ایسے جرائم میں ملوّث افراد کو سزا دی جاسکتی ہے۔ تاہم، اسے ان قوانین کے نفاذ پر اعتراض ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہےکہ اس سلسلے میں کی جانے والی کوششیں ناکافی ہیں یا پھر نیم دلانہ، جن کی وجہ سے پابندی برقرار نہیں رہتی۔ پاکستانی حکومت نے گِرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے جنوری تک کا وقت مانگا تھا، لیکن اب اس میں مئی تک توسیع کردی گئی ہے۔ اس وقت پاکستان کی شدّت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کی سخت مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ رواں ماہ ایف اے ٹی ایف کا ایک وفد کارروائیوں کا جائزہ لینے پاکستان آئے گا اور غالباً اسی لیے شدّت پسند تنظیموں کےخلاف فوری کارروائی شروع کی گئی ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہےکہ جس وقت برسرِ اقتدار جماعت، پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے شدّت پسندی کے خلاف مؤثر اور قابلِ عمل حکمتِ عملی بنانے کا مشترکہ فیصلہ کیا، تو اس کےنتیجے میں نیشنل ایکشن پلان مرتّب ہوا۔ اس میں واضح طور پر شدّت پسندی میں مضمر خطرات اور ان سے نبرد آزما ہونے کے طریقوں کی نشان دہی کی گئی۔ پہلے مرحلے میں دہشت گردوں کےخلاف فوجی کارروائی کی گئی اور اب نہ صرف اندرونِ مُلک بلکہ عالمی طور پر بھی پاک فوج کی عسکریّت پسندوں کے خلاف کام یابی کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ آج مُلک میں امن و امان کی صورتِ حال ماضی کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ بازاروں میں اور سڑکوں پر چہل پہل نظر آتی ہے اور پی ایس ایل کے میچز بھی پاکستان میں منعقد ہو رہے ہیں، لیکن اس حکمتِ عملی کے دوسرے اور طویل المدت حصّےیعنی شدّت پسندی کےخاتمے پر ماہرین، سیاسی جماعتیں اور ادارے کچھ زیادہ مطمئن نہیں۔ یہ کہنا دُرست نہ ہو گا کہ شدّت پسندوں کے خلاف بالکل بھی کارروائی نہیں کی گئی، البتہ اس سلسلے میں عزم اور مستقل مزاجی کی کمی نظر آتی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ساری قوم ہی شدّت پسندی کے خاتمےپر متفق ہے، تو پھر اس راہ میں کون سی رُکاوٹ آڑے آ رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کو مُلک کا ایک طبقہ عالمی دبائو کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور وہی ان کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ تاہم، اب وزیرِ اعظم، عمران خان خود یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ شدّت پسند مُلک کےدشمن ہیں اور ان کی وجہ سے مُلک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ نیز، پاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی اور مُلک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس قدر قربانیاں دی ہوں۔

اس وقت پاکستان کو معیشت اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم، گزشتہ دنوں بھارت کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کے لیے گرفتار بھارتی پائلٹ، ابھے نندن کی واپسی کے پاکستانی فیصلے کو دُنیا بَھر میں پزیرائی ملی اور اقوامِ عالم پر یہ آشکار ہوا کہ پاکستان جنگی جنون میں مبتلا ہے اور نہ ہی اسے جنگی قیدی رکھنے اور اس عمل سے مفادات حاصل کرنے کاکوئی شوق ہے۔ پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ جنیوا کنونشن سمیت تمام عالمی قوانین کی پاس داری کرتا ہے، جس کا مقصد خطّے میں حالات کو معمول پر رکھنا اور بات چیت سے تمام مسائل حل کرنا ہے، لیکن جب شدّت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کی بات ہوتی ہے، تو ہمارے ماہرین اور حُکّام کو خاصے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیز، جب ایک عام پاکستانی بھی بیرونِ مُلک قدم رکھتا ہے، تو اُسے بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ تکلیف اُس وقت دو چند ہو جاتی ہے کہ جب وہ دوسرے ممالک کے باشندوں کو ایسی کسی آزمائش میں گِھرا نہیں دیکھتا۔ بیرونِ مُلک عالمی سازشوں کی گردان کسی طور کارآمد ثابت نہیں ہوتی۔ تو پھر کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ نیشنل ایکشن پلان جیسی متفّقہ دستاویز کے تحت سنجیدگی کے ساتھ عملی اقدامات کرتے ہوئے پوری قوم کو شدت پسندی جیسی مصیبت سے نجات دلائی جائے۔ ویسے بھی طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کے پاس ہوتا ہے اور یہ ایک مسلّمہ اصول بھی ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے پر ذمّے داری عاید کرنے سے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا، لیکن اگر ہم منظّم انداز میں مشترکہ جدوجہد کریں گے، تو اس چوٹی کو سَرکرنا مشکل نہیں ہو گا۔

تازہ ترین