• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فضائیہ کا کثیر المقاصد لڑاکا طیارے جے ایف تھنڈر 17کے ذریعے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ملکی ساختہ میزائل کا کامیاب تجربہ ایک طرف قومی دفاع میں عظیم سنگ میل کی حیثیت کا حامل ہے تو دوسری جانب پچھلے تین ہفتوں کے دوران وطنِ عزیز کو جارحیت کا نشانہ بنانے کی ناکام کوششوں کے تناظر میں ایک کھلا پیغام بھی ہے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان نے قابلِ فخر پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئروں کی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے درست طور پر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک امن پسند ریاست ہے لیکن اس پر جارحیت مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ مذکورہ تجربے کی کامیابی پاک فضائیہ کے جے ایف تھنڈر 17طیارے کو دن اور رات میں انتہائی قابلِ اعتماد درستی کے ساتھ مختلف النوع اہداف کو نشانہ بنانے والے اسمارٹ ہتھیار سے لیس کرنے کا ذریعہ بنی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان ایئر فورس کے ونگ کمانڈر نعمان علی خان اور اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے 27؍فروری کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے والے بھارتی ائیر فورس کے دو طیاروں کو انہی جے ایف 17طیاروں سے نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں دراندازی کرنے والے بھارتی طیارے ایس یو۔30 کا ملبہ مقبوضہ کشمیر جبکہ مگ 21کا آزاد کشمیر میں گرا۔ آزاد کشمیر میں تباہ ہونے والے بھارتی طیارے کے پیرا شوٹ سے اترنے والے گرفتار پائلٹ کی بھارت کو حوالگی کی صورت میں اسلام آباد نے جس جذبۂ امن کا مظاہرہ کیا، اسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ نئی دہلی کے حکمرانوں نے 14؍فروری کو پلوامہ میں مناسب حفاظتی انتظامات سے عاری بڑے فوجی کانوائے پر کار بم خودکش حملے کے واقعہ کو بنیاد بناکر پاک بھارت کشیدگی کو انتہا تک پہنچا دیا جبکہ یہ واقعہ ہر دستیاب شہادت کے اعتبار سے مقامی نوعیت کا حامل ہے اور نئی دہلی کے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر بعض بھارتی حلقے بھی انتخابی ضروریات یا دیگر مقاصد کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے کردار کو موضوع گفتگو بنا رہے ہیں۔ اس واقعہ کی نوعیت ایسی تھی کہ پاکستان سے اس کا تعلق ملانے کی کوشش عالمی برادری کے لئے کسی طور قابلِ قبول نہ ہو سکی جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان واضح طور پر یہ پیشکش کر چکے تھے کہ بھارت کے پاس پاکستانی سرزمین سے کسی مداخلت کے بارے میں قابلِ اعتماد انٹیلی جنس معلومات یا شواہد ہیں تو وہ اسلام آباد سے شیئر کرے، پاکستان اس معاملے میں خود ہر ممکن کارروائی کرنے کے لئے تیار ہے۔ درپیش حالات کی کیفیت نے جارحیت سے نمٹنے کے لئے اسلام آباد کے بھرپور عزم، تیاری و مستعدی اور امن کی خواہش کے جو مظاہر عالمی برادری کے سامنے پیش کئے ان سے صرفِ نظر ممکن نہ تھا۔ اگرچہ امریکہ، برطانیہ، روس، چین سمیت اہم ملکوں کی کوشش سے ہولناک جنگ کے بادل بظاہر چھٹ رہے ہیں مگر جب تک پائیدار امن کے غالب امکانات ابھر کر سامنے نہیں آتے، پاکستانی قوم کو ہر پہلو اور جہت سے مستعد و چوکنا رہنا ہوگا۔ اس لئے 1947ء سے اب تک پاکستان کو اپنی بقا و سلامتی کے لئے بھارت کی ہتھیاروں کی دوڑ اور دوسرے حربوں سے جس طرح چوکنا رہنا پڑا اسی طرح مستقبل میں بھی حالات پر پوری طرح نظر رکھنا ہوگی۔ ماضی کے تجربات نے یہ بھی واضح کیا کہ وطنِ عزیز کو صرف فوجی ذرائع سے حملوں کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ ملکی ڈھانچے کے بیشتر پہلو اندر سے مداخلت اور سبوتاژ کا ہدف بنائے گئے۔ اس لئے دہشت گردی کے آسیب پر بڑی حد تک قابو پانے کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ معیشت، تعلیم، صحت، تحقیق، سماجیات اور سفارت کاری سمیت تمام شعبوں میں حفاظتی ڈھالوں اور حفاظتی حصاروں کا اہتمام کیا جائے۔ کمزوری دفاع میں ہو، معیشت میں یا کسی اور شعبے میں، وہ جارح طاقتوں کے لئے کشش اور دعوت کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرنا اور تمام مکاتبِ فکر کو ساتھ لے کر نیا سفر کرنا اور عالمی برادری کی مدد اور پاک بھارت مکالمے کے ذریعے کشمیر سمیت باہمی تنازعات کے حل کی طرف بڑھنا ہے۔

تازہ ترین