• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تو طے ہو گیا کہ رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔ اِس کا باقاعدہ مظاہرہ بھی ہو چکا لیکن اقبالؔ کا پہلا مصرع اپنی حقیقت نہیں منوا سکا، ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم۔ نہیں! ہم حلقۂ یاراں میں بھی فولاد ثابت ہو رہے ہیں۔ اِس پر تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ بھارت کی طرف سے کوئی یلغار ہو تو ہماری ساری سوئی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ ہم سب فعال اور مستعد ہو جاتے ہیں لیکن اندرونی محاذوں پر ہم اپنے دشمن کی شناخت نہیں کر پاتے، اِس لئے وہاں ذہنی انتشار کا شکار رہتے ہیں۔ اسی انتشار اور بے یقینی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے پاکستانی معیشت اور روز مرہ کے کاروبار۔ اٹھتے بیٹھتے یہی سننے کو ملتا ہے کاروبار ٹھپ ہے، کام نہیں ہو رہے، ہم جیسے معیشت سے نابلد پاکستانیوں کو تو سڑکیں ٹریفک سے بھری، مارکیٹیں گاہکوں سے معمور نظر آتی ہیں، اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گلشن کا کاروبار چل رہا ہے لیکن جو بازار میں دُکانیں سجائے بیٹھے ہیں، ان سے بات ہو تو وہ کہتے ہیں ’’ایسا مندا پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔

معیشت چھوئی موئی کے پھول کی طرح بہت ہی حساس ہوتی ہے، ایک نرم دل دوشیزہ کی مانند۔ ذرا سی مزاج یا معمول کے خلاف بات ہو جائے تو وہ روٹھ جاتی ہے۔ ہماری معیشت کو سرحدوں پر کشیدگی کا بھی سامنا ہے، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا بھی اور اندرونِ ملک نیب کی کارروائیاں، اینٹی کرپشن کے جھٹکے، دفاتر کمپنیاں بند ہو رہی ہیں، میڈیا میں خاص طور پر بے روزگاری بڑھ رہی ہے، بہت سے کاروباروں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی آرہی ہے۔ محنت کشوں کی ضرورت کم ہو رہی ہے۔ حکومت بھی اپنی اقتصادی ذمہ داریاں محدود کر رہی ہے۔ اس لئے سرکاری ملازمتوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہمارے قبائلی معاشرے میں صرف سرکاری ملازمت کو ہی ملازمت خیال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایم این اے، ایم پی اے، وزیروں پر اپنے ووٹروں کا بھی دبائو ہوتا ہے۔ ہماری روایت بھی یہی رہی ہے کہ سرکار کے ملازم ہو جائو۔ کام نہیں کرنا پڑتا۔ سرکاری رہائش بھی مل جائے گی ٹرانسپورٹ بھی۔ اور بہت سی مراعات۔ محلّے میں عزت۔ سرکاری ملازمتوں میں سفارش بھی خوب چلتی ہے۔ میرٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

ہم قرض کی مے پیتے رہے ہیں۔ جانتے تھے کہ ہماری فاقہ مستی ایک دن رنگ لائے گی۔ اور اب وہ دن آگیا ہے جب ہماری فاقہ مستیاں، کام نہ کرنے کی عادتیں، شے کی حقیقت کو نہ دیکھنے کے رویے رنگ لا رہے ہیں۔ آج با اثر لوگ، حاضر سروس سینئر وزیر گرفتار ہو رہے ہیں۔ ہتھکڑیاں بھی لگ رہی ہیں۔ معاشرے کے وہ معتبر جن کی سفارش سے قتل کے مقدموں میں بھی گرفتاریاں نہیں ہوتی تھیں۔ سیاں بھئے کوتوال،اب ڈر کا ہے کا۔ لیکن پیا اب خود حوالات میں ہیں۔ وزیراعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزیر، چیف سیکریٹری، سیکریٹری، آئی جی سب عدالتوں میں قبل از گرفتاری ضمانتیں کرواتے نظر آتے ہیں۔ اتھارٹی کا دبدبہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ تو کسی حد تک ہوا ہے کہ اب ناجائز کام کرتے ہوئے وزیروں، سیکرٹریوں کے ہاتھ کانپتے ہیں مگر یہ سب کچھ خوشدلی سے نہیں ہو رہا۔ سالہا سال سے ناجائز طریقوں سے غلط کام کرنے کی عادتیں پڑی ہوئی ہیں۔ سب کچھ اچانک قانون کی حکمرانی میں نہیں بدل رہا ہے بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ سیکریٹری، ڈائریکٹر، سیکشن آفیسر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے ہیں۔ جائز کام بھی نہیں کر رہے۔ خلق خدا پریشان ہے۔

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

ہم اسی کٹھن مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ احتساب اپنی جگہ ضروری ہے، کسی حد تک ہو بھی رہا ہے مگر پہلی دفعہ ایک سخت احتساب ہو رہا ہے جس میں اپنوں اور غیروں کا امتیاز نہیں ہے۔ اس لئےمتعلقہ وزیر اور سیکریٹری پریشان ہیں۔ احتساب کے ذیلی اثرات کے سدباب کے بارے میں حکمرانوں نے نہیں سوچا کہ اس صورت میں حفاظتی تدابیر کیا ہونی چاہئیں۔ محکموں میں کام بالکل ہی ٹھپ نہ ہو جائے۔ یہ حکمراں سیاسی پارٹی کی ذمہ داری ہے مگر وہ خود بھی اچانک کسی یلغار کے خدشے میں مبتلا رہتی ہے۔ حکمراں جماعت نے بھی کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا لے کر اپنا کنبہ جوڑا ہے۔ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ ایسا تو کوئی بھی نہیں ہے۔

ہر کاروبار دوسرے سے منسلک ہے۔ زمینوں کا لین دین، برآمدات، کارخانوں کی پیداوار، زراعت سب کا آپس میں کہیں نہ کہیں جوڑ ہے۔ اس لئے موجودہ صورتحال سے سب متاثر ہیں۔ کہیں نیب کا ڈر ہے، کہیں ایف بی آر کا، کہیں اینٹی کرپشن کا کیونکہ پورا سسٹم قانون کے خلاف چل رہا تھا۔ انتہائی معمولی جائز کام بھی چائے پانی کے بغیر نہیں ہوتے تھے۔ سب نے کہیں نہ کہیں قانون کی خلاف ورزی کی ہوئی ہے۔ ماورائے قانون کاروبار کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ایک خوف تو ہر کاروباری کے دل میں ہے۔

یہ صورتحال ہر صوبے میں ہے۔ چاہے وہاں وفاقی حکومت والی پارٹی سرکار میں ہے یا دوسری سیاسی جماعت۔ پہلے ہر نئی حکومت کے وزرا کو سیکریٹری صاحبان کمانے کے کھانچے بتایا کرتے تھے، اب وزیر بھی کھانچہ پوچھتے ہوئے ڈرتا ہے اور بیورو کریسی بھی اس میں پہل نہیں کر رہی۔ ناجائز کام کروانے والی مافیا سخت ہیجان میں مبتلا ہے کہ عجیب دور ہے۔ افسر رشوت بھی نہیں لے رہے، کوئی کام بھی نہیں کر رہے۔ وزیر ہوں، سیکریٹری یا کاروباری یا پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین سب نے خرچے اپنی آمدنی سے بڑھائے ہوئے ہیں۔ اب جب بالائی آمدنی میں کچھ ناغہ آیا ہوا ہے تو سب کو ہی مشکل پیش آ رہی ہے۔ یہ تو ماہرینِ معیشت اور سماجی تجزیہ کار ہی تعین کر سکتے ہیں کہ کیا یہ ایک سسٹم بننے کی ابتدا ہے یا انارکی کی۔ سب سے زیادہ برا حال پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کا ہے۔ عدالتی احکامات، نیب اور سرحدی صورتحال سب مل کر اسے متاثر کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کا زیادہ سرمایہ اسی میں لگتا ہے۔ اس اقتصادی جمود سے ہمارا معاشرہ کیسے متاثر ہو رہا ہے۔ کیا پارلیمنٹ میں اس صورتحال پر بحث نہیں ہونی چاہئے؟ کیا ہمیں نئے سسٹم کے قواعد و ضوابط نہیں بنانا چاہئیں؟ جن سے وہ لوگ تو مطمئن ہوں جو صرف جائز کاروبار کرتے ہیں۔ وہ افسر بھی اعصابی دبائو سے نکلیں جو قانون کی پابندی کرتے ہیں۔

مارکیٹوں میں پھیلی ہوئی بے یقینی بہت خطرناک ہے۔ سی پیک، سعودی پیکیج اور متحدہ عرب امارات کی دستگیری کے ثمرات مارکیٹوں میں نہیں پہنچ رہے۔ اس بے یقینی کو ختم کرنے کے لئے عمران انتظامیہ کو تیزی سے اقدامات کرنا چاہئیں۔ عوام، افسروں، دیگر سرکاری ملازمین، سیٹھوں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لئے کیا کاروبار کرنا مناسب ہے۔ اس کے لئے چند ہفتوں کی مہلت بھی دی جا سکتی ہے۔ اسے معافی کہہ لیں یا ایمنسٹی۔ اس عرصے میں سب اپنا قبلہ درست کر لیں۔ اپنی اصلاح کر لیں۔ معاملات کو اس انجماد سے نکال کر ایک مرکزی دھارے میں منتقل کرنا ضروری ہے۔ بے یقینی تبدیلی کا راستہ روکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین