• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرض کریں ایک کمپنی کے ذمہ پچیس ہزار روپے قرض ہے، اُس کی انتظامیہ تبدیل ہو جاتی ہے، کچھ عرصے کے بعد، نئی انتظامیہ کے دور میں، قرض کا حجم اٹھائیس ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ جب انتظامیہ سے پوچھا جاتا ہے کہ جب اُنہوں نے اثاثے نہیں بڑھائے تو قرض کیوں بڑھا تو انتظامیہ جواب دیتی ہے کہ پچھلا قرض اور سود ادا کرنے کے لئے مزید تین ہزار روپے لئے ہیں۔ یہ جواب قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے لیکن جب آپ پوچھتے ہیں کہ قرض اور سود کی مد میں کتنی قسط ادا کرنا تھی تو جواب ملتا ہے کہ سات سو روپے۔ اب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ شراکت داروں پر دراصل تیئس سو روپے قرض کا مزید بوجھ پڑ چکا ہے اور یہ اضافی خسارہ ہے۔

اس کا بھی انتظامیہ کے پاس تیار شدہ جواب موجود ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ پرانی انتظامیہ بدعنوان تھی اور وہ کمپنی کے مفادکے خلاف کام کر رہی تھی۔ موجودہ انتظامیہ دیانتدار، اہل اور محنتی ہے۔ اس پر آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اگر پچھلی انتظامیہ بدعنوان، نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ کمپنی کے مفاد کے خلاف کام کر رہی تھی تو اب جبکہ ایک بہترین انتظامیہ کام کر رہی ہے، تو اب قرض میں کمی اور شراکت داروں کے منافع میں اضافہ ہوتا دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ اب کمپنی کو اپنی تاریخ کے تیز ترین خسارے اور قرض میں اضافے کا کیوں سامنا ہے؟

قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کسی کمپنی کی نہیں، اپنے ملک کی بات کر رہا ہوں۔ اس ملک کو موجودہ حکومت نے بہت کم وقت میں معاشی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ جون 2018ء میں، گزشتہ مالی سال کے اختتام پر، ہمارا مجموعی قومی قرضہ پچیس ہزار بلین روپے کے قریب تھا۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران، جنوری 2019 ء کے اختتام تک، موجودہ حکومت نے اس میں تین ہزار بلین روپوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس نے اپنی آئینی مدت کے دس فیصد میں ہمارا قومی قرضہ بارہ فیصد بڑھا دیا ہے۔ بے شک پی ٹی آئی کے بعض رہنما ہمیں بتاتے ہیں کہ قومی قرضے میں اضافے کی وجہ وہ سود ہے جو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے لئے گئے قرضوں پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ (میراخیال ہے کہ پی ٹی آئی رہنما مشرف دور اور اس سے پہلے ادوار میں لئے گئے قرضوں سے اغماض برت رہے ہیں، ذرا حوصلہ کریں) حقیقت یہ ہے کہ جنوری تک حکومت نے صرف سات سو بلین روپے قرض ادا کیا ہے۔ باقی تیئس سو بلین روپے کہاں گئے؟ یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی حکومتیں بھی سابق حکومتوں کیلئے گئے قرضوں پر سود ادا کرتی تھیں۔ درحقیقت گزشتہ سال مسلم لیگ (ن) حکومت نے سود کی مد میں چودہ سو بلین روپے ادا کئے تھے۔ ہم نے موجودہ مالی سال میں قرض کی ادائیگی کے لئے پندرہ سو بلین روپے بجٹ میں رکھے تھے۔ پی ٹی آئی کو زیادہ قرض اس لئے ادا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس نے آتے ہی سود کی شرح میں اضافہ کر دیا تھا۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ سود کی شرح بڑھا کر معاشی ترقی کی رفتار کو سست کرنے سے کیا حاصل ہوا؟ کیا اس سے افراطِ زر یا مہنگائی میں کمی آئی؟

رقم میں قدر کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ پتا چل سکے کہ قرض کیسے اوپر چلا گیا۔ اس کا مطلب قرض میں اضافے کو درست قرار دینا ہرگز نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے ملک پر بوجھ میں اضافہ ہو گیا۔ اگر ہم 1250بلین روپوں سے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کے اثرات نکال دیں تو بھی سات ماہ کے دوران 1050بلین روپوں کا ہوشربا فرق دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ تو ابھی سال کا پہلا نصف ہے۔ زیادہ تر بل سال کے دوسرے نصف میں آتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ موجودہ حکومت ہماری تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی خسارے کی وجہ بن رہی ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ گزشتہ سال جب ہم بلند خسارے کا شکار ہوئے تو کم از کم ہماری معاشی شرح نمو بہت اونچی تھی۔ اس نے قومی آمدنی میں 2ہزار بلین روپوں کا اضافہ کیا تھا۔ ہم نے 7سو بلین روپے ترقیاتی منصوبوں پر لگائے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت نہ تو ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے اور نہ ہی معاشی شرح نمو بڑھا پا رہی ہے۔

حکومت بجلی کے بلوں میں پندرہ فیصد اور گیس کے بلوں میں45فیصد اضافہ کرنے کے بعد بھی گردشی قرضوں میں یومیہ 127کروڑ روپوں کا اضافہ کر رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالوں کے دوران گردشی قرضوں میں اوسط اضافہ یومیہ 7.7کروڑ روپے تھا۔ ثابت ہوا کہ ہم بہت برے تھے اور گردشی قرضوں میں یومیہ سولہ گنا اضافہ کرنے والی پی ٹی آئی اچھی ہے۔ گردشی قرضے میں یومیہ 127کروڑ کا اضافہ بجٹ خسارے کے علاوہ ہے۔ اس طرح حکومت عوام پر ایک بوجھ تیزی سے لاد رہی ہے لیکن یہ وہ بوجھ ہے جو لوگ بلوں میں اضافے کے برعکس فوری طور پر محسوس نہیں کرتے۔ حکومت گردشی قرضوں میں یومیہ سولہ گنا اور قومی قرضے میں مسلم لیگ (ن) کی نسبت 2.5 گنا تیزی سے اضافہ کر رہی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے رہنما بدعنوان تھے تو پی ٹی آئی کے رہنما کیا کر رہے ہیں؟ میں ٹھوس ثبوت کے بغیر بدعنوانی کا الزام لگانا پسند نہیں کرتا لیکن ہر اعتبار سے موجودہ حکومت نے مایوس کیا ہے۔ چلیں! ستم ظریفی نہ کہیں لیکن کتنی دلچسپ بات ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں کے اربن ٹرانسپورٹ منصوبے اُن کی کارکردگی کے عکاس نکلے۔ اگر کراچی کی ’’نامعلوم میٹرو بس سروس‘‘ پی پی پی کی گورننس اور لاہور کی فعال میٹرو بس مسلم لیگ (ن) کی گورننس کی مظہر ہے تو ایک سو بلین روپے پی کر بھی پکڑائی نہ دینے والی پشاور میٹرو بس سروس پی ٹی آئی کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ پشاور میٹرو اور ہماری معیشت اُن گہرے گڑھوں سے نکلیں گی جو موجودہ حکومت نے کھود رکھے ہیں۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین