• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

فیضؔ کا یہ شعر کسی اور پر منطبق آتا ہے یا نہیں ہماری پولیٹکل ویلیج لائف پر ضرور موزوں بیٹھتا ہے۔ گاؤں کے چوہدری کا اعلان تھا کہ میری خوشنودی کیلئے دھینگا مشتی کرو گے تو الٹی بھی سیدھی ہو جائے گی لیکن اگر اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر کوئی سیدھی حرکت بھی کی تو الٹے یا سیدھے کر دئیے جاؤ گے۔ اس گاؤں میں ایک تھی بی بی اور ایک تھا میاں۔ 90ء کی دہائی میں ان دونوں کو پیہم اس طرح لڑایا گیا جس طرح کبھی لکھنؤ کے نواب اپنے مرغوں کو لڑاتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ یہ نادان تاحیات ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے رہیں گے۔ انسان اگر ہلکے مفادات کی خاطر کچھ دیر کے لیے شعوری آنکھیں موند لے تو الگ بات ہے ورنہ تلخ حقائق و تجربات اُسے وہ کچھ سکھلا دیتے ہیں جو آکسفورڈ یا ہاؤرڈ بھی سکھلانے سے قاصر رہ جاتی ہیں۔ کچھ ایسے ہی تھپیڑے کھانے کے بعد باہم برسرِ پیکار میاں اور بی بی نے شعور کی رہنمائی میں بہن بھائی بننے کا فیصلہ کر لیا، جس کا فوری ثمر ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ جیسی وہ دستاویز تھی کہ سویلین اتھارٹی پر ایمان رکھنے والوں کے لیے اس کا تقدس کسی طرح بھی قومی دستور سے کم نہ تھا۔ پھر کیا ہوا کہ اس نڈر و بے باک بی بی کا کام تمام کروا دیا گیا۔ بی بی کیا گئی کہ رُت ہی بدل گئی۔ سول رائٹس پر ایمان رکھنے والوں کے لیے ٹھنڈا موسم بھی خزاں بن کر رہ گیا۔ جنتا نے بی بی کی محبت میں اُس کی پارٹی کو بھرپور مینڈیٹ سے نوازا مگر دوسرے درجے کی قیادت نے پانچ برسوں بعد قلعی یہ کھولی کہ میرے کھیسے میں تو محض بھوسا تھا، آدھے سے زیادہ چارہ نمبردار لے گیا۔ جو بچا تھا، اُس پر تب کے بابا رحمتا نے قبضہ جما لیا۔ مابعد جنتا میاں صاحب کی طرف لپکی اور اُنہیں باوقار اسلوب سے حکومت کے سنگھاسن پر براجمان کر دیا لیکن چوہدری صاحب اتنے نکو نہیں تھے۔ آج میاں صاحب پریشان ہی نہیں بیمار بھی ہیں۔ ایسے بیمار کہ جیسے دوا دارو علاج یا صحت سے بھی بے نیازی و لاپروائی ہو چکی ہو ۔معاملہ جو بھی ہے حکومت وقت کو مشورہ ہے کہ وہ کہیں کوئی سیاہ دھبہ اپنے چہرے پر نہ لگوا بیٹھے کہ اس کے بعد وضاحتیں دینا پڑیں، سب رائیگاں جائے گا۔ اقتدار سے بے دخلی تو رہی ایک طرف قومی تاریخ میں بھی کہیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ آمروںکی بداحتیاطی سے سبق سیکھ لیا جائے۔

آج بی بی کا بیٹا اپنے انکل کی تیمارداری کیلئے جیل آیا ہے تو طرح طرح کی چھوڑی جا رہی ہیں یا شاید دل کے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جو بیانات جاری کرنے کے شوقین ہیں، فرما رہے ہیں کہ بھٹو کے نواسے اور ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے کی ملاقات اس صدی کا سب سے بڑا یوٹرن ہے۔ کل تک تو آپ کی اعلیٰ قیادت یوٹرن کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے تھر میں بھی اسے مجرب نسخے کے طور پر پیش فرما رہی تھی۔ آج آپ اس کی تنقیص کر رہے ہیں۔ رہ گئی ضیاء الحق سے اسکے منہ بولے بیٹے کی رشتہ داری تو اطلاعاً عرض ہے کہ یہ ہنڈیا بیچ چوراہے برسوں قبل پھوٹ چکی۔ اُسی توڑ پھوڑ ہی کا تو خمیازہ ہے کہ جو یہ شخص کبھی جیل بھیجا جاتا ہے کبھی کرپشن نامی دلدل میں پھینکا جاتا ہے۔ بصورت دیگر یہ آج چوتھی مرتبہ بھی کھلاڑی سے بہتر آن کے ساتھ کٹھ پتلی کا رول ادا کر رہا ہوتا اور اس کے مقربین آپ کے عہدے پر فائز ہوتے کیونکہ یہ تو چوہدری صاحب کا اتنا لاڈلا تھا کہ وہ ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگتے ’’پروردگار میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے۔‘‘ اقتدار کی آسائش چھوڑ کر نظریاتی بننا عزیمت کی وہ راہ ہے جو تاریخ میں کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ آج بظاہر وہ جیل میں ہے لیکن قومی تاریخ میں اُس کا مقام بھٹو سے بھی کہیں اوپر محترم سہروردی اور محترمہ بینظیر کے بیچ میں مستحکم ہو چکا ہے۔

تاریخ کو پڑھتا تو ہر سیاستدان ہے لیکن اس سے سیکھتا کوئی کوئی ہے۔ درویش نے برسوں قبل بی بی کے فرزند کو یہ توجہ دلائی تھی کہ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز وہاں سے کرو جہاں تمہاری والدہ کی جدوجہد تمام ہوئی۔ مرنے سے قبل وہ اپنے سیاسی حلیف یا حریف سے فون پر اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اُسے ملنا چاہتی تھیں مگر آپ نے کہا نہیں میں نے اپنی سیاست وہاں سے شروع کرنی ہے جہاں سے میری والدہ نے اس کا آغاز کیا تھا۔ کنٹرول لائن کے قریب پہنچ کر آپ ’’مودی کے یار‘‘ کی گردان ہانکتے رہے۔ 90ء کی دہائی والا کون سا الزام ہے جو آپ نے نہیں دہرایا۔ رہتی کسر آپ کی پارٹی کے دیگر غیر ذمہ دار لیڈران نے پوری کر دی۔ بی بی کی یادگار چارٹر آف ڈیمو کریسی کی جو درگت دوسروں نے بنائی سو بنائی، کسر آپ لوگوں نے بھی نہیں چھوڑی۔ آپ کے حریف نے تو وقت سے سیکھا تھا، جو کبھی سابق چوہدری کے مشن کی بات کرتا تھا ،بھیگی سرخ آنکھوں کے ساتھ بی بی کی قبر پر کھڑے ہو کر یہ عہد کر رہا تھا کہ میں محترمہ کے مشن کی تکمیل کروں گا۔ مابعد سیاسی جبر کے تھپیڑوں کی بھٹی نے اُسے کندن بناکر نظریاتی جدوجہد کی شاہراہ پر ایسے گامزن کر دیا کہ آج آپ خود جیل میں ملنے کے بعد یہ اعتراف کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ میاں صاحب ڈیل کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ اب نظریاتی بن چکے ہیں۔ وہ بیمار ضرور ہیں مگر اپنے اصولوں پر کھڑے ہیں۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے کے بھی انسانی حقوق ہیں۔ انہیں علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔ آپ تین بار کے وزیراعظم ہیں۔ یہ لوگ زیادہ دیر آپ کو بند نہیں ر کھ سکتے۔ امید ہے ہماری اگلی ملاقات جیل سے باہر ہو گی۔ اسی جیل میں میرے والد اور نانا بھی گرفتار رہے۔ آج یہاں آنا میرے لیے تاریخی دن ہے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین