ڈیٹرجنٹ سے متعلق چل رہا ایک ٹی وی کمرشل دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ صنفی امتیاز کی کہانی اتنی سادہ بھی نہیں جتنی بتائی جاتی ہے۔ بظاہر ایک عام سا کمرشل ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی بچی منہ بسور کر بیٹھی ہے، اس کا بھائی جو خود بھی چھوٹا سامعصوم بچہ ہے، اپنی بہن سے کہتا ہے ’’کھانا کھا لیں؟‘‘ ننھی سی بہن شکوہ کرتے ہوئے کہتی ہے ’’بریانی نہیں بنائی بھائی‘‘۔ ماں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے ’’اتنی تیزی سے کیسے بنے گی‘‘۔ مگر بھائی تو بھائی ہے، وہ کچن میں گھس کر جیسے تیسے بریانی بناکر اپنی چھوٹی سی بہن کو پیش کرتا ہے تو وہ خوش ہو جاتی ہے۔ بریانی بنانے کی کوشش میں اس کے سارے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔ آپ اس کمرشل کو 8مارچ کے عورت مارچ میں اٹھائے گئے کتبوں سے ملا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ صنفی امتیاز کی حقیقت کیا ہے۔ وہ بات جو ’’کھانا خود گرم کر لو‘‘ سے شروع ہوئی تھی، ’’مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔ بیشتر مرد حضرات حقوقِ نسواں کی اس تحریک پر بھائو کھاتے اور فحش جگتوں پر تلملاتے نظر آتے ہیں مگر سچ پوچھیں تو میں بہت خوش ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو کیونکہ میرے خیال میں مجموعی طور پر انسانی معاشرے میں عورت نہیں بلکہ مرد صنفی امتیاز کا شکار ہے اور برسہا برس سے اس کا جذباتی استحصال ہو رہا ہے۔ جس طرح اس کمرشل میں دکھایا گیا ہے، اسی طرح بچپن میں ہی لڑکے کو مردانگی کے بانس پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ تم مرد ہو، مرد کو درد نہیں ہوتا۔ مرد کو رونا زیب نہیں دیتا۔ مرد اگر بھائی ہے تو بہنوں کے ناز نخرے اُٹھانا اور ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنا اس کی ذمہ داری ہے، اگر بیٹا ہے تو ماں کے احسانات تلے دبا رہے، شوہر ہے تو بیوی کے لئے آسمان سے تارے توڑ کر لائے۔ اس کے برعکس عورت جب پیدا ہوتی ہے تو اپنے باپ کی نورِ نظر اور لختِ جگر کہلاتی ہے، وہی باپ جو اپنے بیٹوں کو صبح شام کوسنے دیتا ہے، جوتوں سے تواضع کرتا ہے اور جیب خرچ دینے سے پہلے کئی طرح کے سوالات پوچھتا ہے، بیٹی کے معاملے میں اس کا رویہ یکسر بدل جاتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ شہزادیوں کی طرح اس کی پرورش ہو۔ بیٹی گھر میں راج کرتی ہے، تجوری کی کنجی ماں سے بیٹی کو منتقل ہو جاتی ہے، شادی کے وقت باپ اپنی بساط سے بڑھ کر جہیز دیتا ہے، بیاہ ہونے کے بعد اسے شوہر کی شکل میں ایک اور کفیل میسر آ جاتا ہے اور وہ مہارانیوں کی طرح زندگی گزارتی ہے۔ بعض گھروں میں خواتین پر تشدد ضرور ہوتا ہے اور اس کے خلاف معاشرے کا ہر باضمیر شخص آواز بھی اٹھاتا ہے مگر من حیث المجموعی عورت کی زندگی بہت سہل اور پُر آسائش ہے۔
میں نے انسانی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے اہلِ علم افراد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر مرد وزن کے حالیہ کردار کا تعین کیسے ہوا؟ کس نے یہ فیصلہ کیا کہ مرد مسئول ہے، اس کا کام کما کر لانا ہے جبکہ عورت کا کردار امورِ خانہ داری تک محدود ہے؟ طویل مکالموں اور تاریخی حوالوں کا نچوڑ یہ ہے کہ عورت سے متعلق ہمارا معاشرہ مغالطوں کا شکار ہے۔ عمومی معاشرتی سوچ کے مثل عورت آدھی نہیں بلکہ سوا سیر ہے اور مرد کے مقابلے میں زیادہ ذہین و چالاک ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز میں عورتوں کی حاکمیت کے واضح آثار ملتے ہیں۔ پھر بتدریج خواتین کو محسوس ہوا کہ اس حکمرانی میں اختیارات کے پھولوں کے ساتھ ذمہ داریوں کے کانٹے بہت ہیں تو کیوں نہ مرد کو فوقیت دی جائے اور اپنی آزادیوں پر سمجھوتا کئے بغیر آسودگی اور بے فکری کی زندگی بسر کی جائے۔ شعوری ارتقا کے اس سفر میں بتدریج مرد کو کولہو کا بیل بنا دیا گیا۔ یہ تصور راسخ ہو گیا کہ عورت تو صنف نازک ہے، جفا کشی اور محنت مزدوری سے اس کا کیا کام۔ یوں خواتین آرائش و زیبائش اور آسائش تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ اس دوران توقعات کے برعکس کہیں خواتین کو اپنے بنیادی حقوق پر بھی سمجھوتا کرنا پڑا لیکن بالعموم یہ کوشش کامیاب رہی اور مرد کاٹھ کا اُلو بن کر رہ گیا۔
بلاشبہ عورت بچے پیدا کرنے والی مشین نہیں ہے لیکن تکلف برطرف، مرد بھی اے ٹی ایم مشین نہیں ہے جسے محض پیسے بٹورنے کے لئے کفیل تو بنا لیا جائے مگر پھر کہا جائے کہ کھانا خود ہی گرم کر لو، اپنی جرابیں آپ ڈھونڈو۔ یہ بات نکلے گی تو بہت دور تک جائے گی۔ جواب آں غزل کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مرد بھی ’’مردِ بحران‘‘ نہیں جو ہر مشکل وقت میں کام آئے۔ صنفی امتیاز محض گاڑی کا ٹائر بدلنے اور چھپکلیاں مارنے تک محدود نہیں ہے۔ مرد بیچارہ تو گھر میں بیک وقت ترکھان، پلمبر، الیکٹریشن، پلے دار اور نجانے کیا کچھ ہوتا ہے۔ بھلا کس مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ چھت والا پنکھا مرد ہی صاف کرے گا؟ کس اصول کے تحت یہ طے ہوا کہ جوسر مشین سے واشنگ مشین تک گھر کی کوئی بھی چیز خراب ہو گی تو مرد ہی ٹھیک کرے گا؟ یہ صنفی امتیاز نہیں تو کیا ہے کہ ہے کہ کچن کا واش بیسن خراب ہو، ٹنکی میں پانی نہ جا رہا ہو یا اس نوعیت کا کوئی بھی مسئلہ ہو تو مرد ہی سے رجوع کیا جائے گا۔ ان تمام خدمات کے باوجود بھی گھر میں مرد کی حیثیت ایک ایسے مشکوک ملزم کی سی ہے جس کا نام فورتھ شیڈول میں شامل ہے۔ بیوی سمجھتی ہے کہ تھانیدارنی کی حیثیت سے شوہر کی نگرانی کرنا، اس کی آمد و رفت کا حساب کتاب رکھنا اور موبائل فون کنگھالنا اس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ عورت خوش ہو تو مرد خوش ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس اگر مرد خوش ہو تو عورت سوچ میں پڑ جاتی ہے کہ آخر یہ اتنا خوش کیوں ہے۔ صنفی امتیاز کا یہ عالم ہے کہ مرد امورِ خانہ داری میں عورت کا ہاتھ بٹائے تو ’’رَن مرید‘‘ کا لقب پاتا ہے لیکن عورت ملازمت کرے تو خوددار کہلاتی ہے۔
سرِ تسلیم خم، دیہات کی وہ عورت ضرور مظلوم ہے جو کھیتوں میں کام کرتی ہے، اپنے بچوں کیساتھ مویشی بھی پالتی ہے اور پھر نکھٹو اور کام چور شوہر سے مار بھی کھاتی ہے مگر طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ہاں حقوقِ نسواں کی باسی کڑھی میں ابال آتا ہے تو خواتین پر سب سے بڑا ظلم یہ نظر آتا ہے کہ انہیں کھانا گرم کرنے کو کہہ دیا جائے یا پھر کوئی مرد یہ پوچھنے کی جسارت کرے کہ میرے موزے کہاں ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ انسانی معاشرے میں مجموعی طور پر عورت نہیں بلکہ مرد صنفی امتیاز کا شکار ہے، مردِ بحران کہہ کر اس کا جذباتی استحصال کیا جا رہا ہے، مردانگی کے بانس پر چڑھا کر اسے کولہو کا بیل بنا دیا گیا ہے۔ استحصال سے بچنا ہے تو اس تحریک کو چلنے دیں، صنفی مساوات کی حمایت کریں کیونکہ جب برابری کی سطح پر بات ہو گی تو حقوق ہی نہیں ذمہ داریاں بھی برابر تقسیم ہوں گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)