• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی میں صبر و ضبط اور تحمل و برداشت کی اہمیت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ بھلائی اور برائی برابر نہیں، اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو،پھر تو تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی ہے ،وہ ایساہوجائے گا گویا گہرا دوست ہے ۔ (سورۂ فصّلت)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ اللہ نے اس آیت میں ایمان والوں کو غیظ و غضب میں صبر اور نادانی وجہالت کے وقت حلم و بردباری اور برائی کے مقابلے میں عفو و درگزر کا حکم دیا ہے، جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ انہیں شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا۔ (تفسیر کبیر: ۱۳/۶۴۰)معلوم ہوا کہ غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے، شیطان انسان کو مختلف تدابیرکے ذریعے ابھارنا چاہتا ہے، تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کربیٹھے جو اس کے لیے نقصانات کا باعث بنے، اسی لیے قرآن نے ہمیشہ عفو و درگزر کی تعلیم دی اور یہ پیغام دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔ بدخواہ اور حاسدین دنیا میں جتنا چاہیں تمسخر اور مذاق اڑالیں، ایک دن ضرور انہیں اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرنا ہوگا، دنیا میں اگر کسی مصلحت کے سبب نجات مل بھی گئی تو قیامت جو عدل و انصاف کا دن ہے، وہاں پر ہر ایک کو اچھے اور بُرے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔ اللہ نے اپنا یہ فیصلہ ان الفاظ میں سنایا ہے : ”ایمان والوں سے کہہ دیجیے ، انہیں جو اللہ کے جزاو سزاکے واقعات پر یقین نہیں رکھتے، معاف کردیا کریں،تاکہ لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ ملے، جس نے اچھا کیا ،اس نے اپنے بھلے کے لیے کیا اور جس نے براکیا اس نے اپنا برا کیا، پھر تم اپنے پروردگار کے پاس لوٹائے جاوٴگے‘‘۔(سورۂ جاثیہ: ۲۴) اس آیت کے شانِ نزول میں لکھا ہے کہ کسی منافق یا کافر نے کسی مسلمان سے کوئی بدتمیزی کی بات کہی تھی، اس سے بعض مسلمانوں کو طیش آیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اورعفو و درگزر کی نصیحت کی گئی۔ (تفسیر کبیر ۱۴/ ۱۷۳)

اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات نازل کی گئیں ، جن میں مختلف پیرا یہ سے جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی چھوڑ کر بردباری اور قوتِ برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے اور کسی ناخوش گوار واقعے پر کسی کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکانا شیطانی راستہ ہے اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، اس لیے اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہیے۔ (سورۂ فاطر: ۶)

رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنا غصہ اتارنے اور بدلہ لینے پر قادر ہو اور اس کے باوجود وہ اپنے غصے کو دبائے اور قابو میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اختیار دےگا کہ وہ جنت کی آہو چشم حوروں میں سے جسے چاہے لے لے۔ (ترمذی)حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ مجھے کوئی وصیت فرمائیے، جس پر میں عمر بھر کاربند رہوں، آپﷺ نے فرمایا : غصہ کبھی مت کرنا، راوی کہتے ہیں، اس شخص نے اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے باربار یہی سوال لوٹایا، مجھے وصیت کیجیے، آپﷺ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا، غصہ کبھی مت کرنا۔ (صحیح بخاری)

غصہ ایمان و عمل کے لیے انتہائی مہلک ہے، خلافِ مزاج کسی واقعے پر جب انسان بے قابو ہوجاتا ہے تو تمام شرعی رکاوٹیں اس کے لیے بے اعتبار ہوجاتی ہیں اور وہ غصے کی حالت میں جو چاہتا ہے ،کرڈالتا ہے، اس لیے آپﷺ نے حدیثِ مذکور میں غیظ و غضب سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اچھے سے اچھا سمجھدار انسان بھی شدید غصے میں عقل سے خارج اور بالکل پاگل ہوجاتا ہے، نہ اللہ ا ورسولﷺ کی تعلیمات کا ہوش رہتا ہے، نہ اخلاق و انسانیت کے تقاضوں کا، اسی لیے کہا گیا ہے: ’’غصہ تھوڑی دیر کی دیوانگی کا نام ہے‘‘۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ بعض مرتبہ شدتِ غیظ و غضب سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے یا مستقل طورپر پاگل ہوجاتا ہے اور یہ تو بالکل عام بات ہے کہ غصہ فرو ہونے کے بعد انسان خود کو اپنے کیے پر ملامت کرتا ہے اور بسااوقات بڑے بڑے دوررس نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ، غصے کے بھوت پرقابو پانا صبر و ضبط کا ملکہ پیدا کیے بغیر اور برداشت و تحمل کی عادت ڈالے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا غصہ نہ کرنے کی وصیت کا منشا درحقیقت صبر و ضبط کی عادت ڈالنے کی وصیت فرمانا ہے۔ (شرح ریاض الصالحین: ۱۳۵)

مختلف مواقع پر نفس کو کچل کر خلافِ نفس کام کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے ، یہی وہ راز ہے جس سے انسان کا سفر ہمیشہ بلندی کی طرف جاری رہتا ہے، وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا اور نہ کبھی مایوسی کا شکار ہونا پڑتا ہے، لیکن جذبات اور غیظ وغضب سے ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچتا ہے، اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا۔ قریش نے آپ ﷺکو مارنے کی دھمکی دی، راستوں میں کانٹے بچھائے، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا،، مگر کوئی ایسی مثال نہیں کہ غیظ و غضب سے بے قابو ہوکر آپﷺ نے کوئی کارروائی کی ہو، قربان جائیے رحمت ِ دوعالم ﷺپر آپ موقع بہ موقع صحابہٴ کرامؓ کے جذبات کو سکون دینے کی کوشش کرتے اور انہیں صبر و ضبط ،تواضع و بردباری کا سبق سکھاتے رہتے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کا بھی مزاج اسلام قبول کرنے کے بعد نرم پڑگیا تھا، وہی عمر جو معمولی باتوں میں تلوار سونت لیا کرتے تھے، جب اسلام کی دولت سے سرفراز ہوئے اور مزاجِ نبوت سے آشنا ہوئے تو تحمل و بردباری کا حیرت ناک جذبہ ان میں پیدا ہوا۔ عین اس وقت جب کہ عام انسانوں کا قابو میں رہنا مشکل ہوتا ہے، حضرت عمر فاروقؓ معافی کا اعلان کردیا کرتے تھے۔

کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی، لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر تحمل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے توزندگی گزارنامشکل ہوجائے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔رسولِ اکرم ﷺنے جب نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپ کے لیے اجنبی بن گیا، وہی لوگ جن کے درمیان آپ کا بچپن اور جوانی گزری، جو آپ کی امانت و صداقت کے بڑے مداح اور عاشق تھے،وہ آپ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے۔عرب کی اجڈ قوم کے دل و دماغ میں اسلام اور آپﷺ کی بے پناہ محبت اتنی جلدی کیسے رچ بس گئی اور کس طرح ان جانے دشمنوں نے دل و جان سے آپﷺ کی امارت واطاعت قبول کرلی، یقیناً اس پر انسانی عقل دَنگ رہ جاتی ہے اور حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے اس تاریخی انقلاب میں جہاں رسولِ اکرم ﷺ کی شیریں زبان، اعلیٰ اخلاق، بہترلب ولہجہ اور پیہم جدوجہد کا حصہ ہے، وہیں آپﷺ کا صبر و تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ بلاشبہ صبرو تحمل کا وصف انتہائی مفید و معنی خیز ہے، اس سے سعادت و بھلائی اورسکون و اطمینان کے مواقع تو ہاتھ آتے ہی ہیں، ساتھ ہی صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کی قیادت و امامت کا درجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، اللہ نے اپنا یہ دستور اور قانون بہت پہلے ہی ان الفاظ میں سنایا ہے : ’’ ہم نے ان میں سے بعض کو قائد اور امام بنایا جو ہماری باتوں سے لوگوں کو واقف کراتے تھے، یہ ان کے صبر کا بدلہ ہے۔‘‘

رسولِ اکرم ﷺ کی پوری زندگی صبر و تحمل سےعبارت ہے،اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے، پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طورپر جذبات کی رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دوررس نگاہ متاثر ہوجاتی ہے اور سوچ و تدبّر کا مزاج نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر سیرتِ نبویؐ کے اس پہلو کو اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔

تازہ ترین