• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کی جانب سے متعدد میگا پراجیکٹس پر کام جاری ہے، جو اس کے شہروں کو بدل کر رکھ دیں گے۔ آئندہ ایک دہائی کے دوران چین کا ارادہ ہے کہ 25 کروڑ افراد کو ملک کے بڑے شہروں میں منتقل کیا جائے۔ اتنی بڑی نقل مکانی کے لیے چین میں اربوں ڈالرز سے انفرا اسٹرکچر کے بہت بڑے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔ ان میں سے ایک دنیا کا سب سے بڑا سمندری پل ہے۔ چین نے دنیا کے طویل ترین سمندری پل کی صورت میں دنیا کا ایک اور عجوبہ تعمیر کر لیا ہے، جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ہانگ کانگ-جوخائے-مکاؤ پل پرل ریور یعنی نہرالولو کے ڈیلٹا پر تعمیر ہونے والا دنیا کا طویل ترین پل ہے۔ اس کی لمبائی 55 کلو میٹر سے زیادہ ہے، جو اپنے آپ میں بےمثال انجینئرنگ کا نمونہ ہے۔

اس سے پہلے دنیا کا سب سے طویل سمندری برج بھی چین میں ہی تھا، جس کی لمبائی 26اعشاریہ3 میل تھی جو کہ چنگ ڈاؤ میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 55کلو میٹر(34میل )تک پھیلے ہانگ کانگ۔ جوخائے۔مکاؤ۔ برج منصوبے نے چین کے 3 بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے منسلک کردیا ہے اور اس طرح 4 کروڑ 20 لاکھ افراد پر مشتمل ایک بڑے شہر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے سمندری پل کی تعمیر سے ان تینوں شہروں کے درمیان سفر کے وقت میں50فیصد سے زیادہ کمی آچکی ہے۔ ماضی میں ہانگ کانگ اور جوخائے شہر کے درمیان سفر 4گھنٹے طویل تھا جو کہ اس پل کی مدد سے سمٹ کر محض 30منٹ رہ گیا ہے۔ جبکہ اس پل کے کھلنے سے پرل ریور کے ذریعے ہانگ کانگ سے مکاؤ جانے والے افراد ایک گھنٹے کے اندر ہی اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ پل6لین کا ہے۔ اس میں 4 سرنگیں بھی تعمیر کی گئیں، جن میں سے ایک زیرآب ہے۔ اس پل کو سہارا دینے کے لیے چین کی جانب سے 4 مصنوعی جزیرے بھی تعمیر کیے گئےہیں۔

چین نے اسے’ 'انجینئرنگ کا عجوبہ‘ قرار دیا ہے، جس میں 4 لاکھ 20ہزار ٹن اسٹیل استعمال کیا گیاہے، اتنے اسٹیل سے 60 ایفل ٹاور آسانی سے تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ مقامات پر اس پل میں معمولی ڈھلوان بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کا ڈیزائن زلزلوں، علاقے کو تہہ و بالا کر دینے والے موسمی سمندری طوفانوں اور حادثاتی طور پر جہازوں کی ٹکر کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔

پل کی تعمیر کا آغاز 15دسمبر 2009ء کو کیا گیا تھا،تقریباً 10 برس کی مدت میں مکمل ہونے والے اس عظیم الشان پل پر اخراجات کا درست تخمینہ سامنے نہیں آسکا، تاہم اب تک چین اس پر اربوں ڈالر کی رقم خرچ کرچکا ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق، یہ رقم 20ارب ڈالر بنتی ہے۔

پل بنانے والی ٹیم کے سربراہ گاؤ ژنگلن کہتے ہیں کہ امریکا، برطانیہ ، ڈنمارک، سوئزر لینڈ اور جاپان سمیت دنیا کے 14 ممالک کے ماہرین نے مل کر اسے ڈیزائن کیا ہے۔ اس منصوبے کے اختتام پر ہونے والے جانی نقصان پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا تھا۔ تاہم اب اس کی تکمیل کے بعد ذرائع ابلاغ کے

نمائندوں کو اس پل کا دورہ بھی کرایا گیا ہے، جس کے دوران وہ اس پل کے ناقابلِ یقین ڈیزائن کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پروجیکٹ کی تعمیر کے دوران چین اور ہانگ کانگ کے 9 مزدور ہلاک ہوئے، جن میں سے اکثر سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔

پل کو عبور کرنے کے لیے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ خصوصی اجازت نامے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو ٹول ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا۔ اس انوکھے پل کو انجینئرز کی زیرِ نگرانی کئی بار آزمائش کے بعد عوام کے لیے کھولا گیا ہے۔ حکام کے مطابق پُل پر کمرشل گاڑیاں اور مسافر بردار بسیںچلانے کی اجازت ہے جبکہ چھوٹی گاڑیوں کے ڈرائیورز کو خصوصی پرمٹ حاصل کرنا ہوگا۔اندازہ ہے کہ اس طویل پل سے روزانہ 40 ہزار گاڑیاں گزریں گی جبکہ ہر 10 منٹ بعد شٹل بسیں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ پیدل چلنے والوں یا موٹرسائیکل سواروں کو اس پل پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ہانگ کانگ یا چین سے پُل کا استعمال کرنے والے افراد کے لیے راستے میں2اِمیگریشن مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں، جہاں مسافر اپنی دستاویزات کی جانچ پڑتال کروائیں گے۔

چین اس دیوہیکل پل کے ذریعے اگلے 10 برس میں مزید 25 کروڑ افراد کو بڑے شہروں میں بسانا چاہتا ہے اور اس کے لیے شہری انتظامات اور انفرااسٹرکچر پر کھربوں یوان خرچ کیے جارہے ہیں۔

چینی ماہرین کے مطابق اس پل کی مرمت کا خاص خیال رکھا جائے گا تاہم اس پل کی عمر120 سال بتائی جارہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پُل کی تعمیر سے چین کو سالانہ70 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔

تازہ ترین