• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد علی جوہر جیل سے رہا ہوئے تو کہا کہ میں چھوٹی جیل سے بڑی جیل میں آگیا ہوں۔ بڑی جیل اِن معنوں میں کہ قوم و ملک انگریزوں کے محکوم تھے۔ سارا ملک جیل خانہ ہی لگتا تھا۔ مولانا حسرت موہانی جیل میں چکی چلاتے ہوئے مشق سخن جاری رکھتے تھے۔ گاندھی جی پر مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم و مغفور کی ترجمہ شدہ کتاب ’’پیرہا برمتی‘‘ پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ گاندھی جی جیل کو تربیت گاہ سمجھتے تھے۔ اِس تربیت گاہ میں سیاسی قیدیوں کو اپنی غلطیوں کا تجزیہ، ذات کا احتساب، اپنی کمزوریوں کا حساب اور قید و بند میں زندگی گزارنے کا موقع بھی ملتا ہے اور شخصیت کی تربیت کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ خاموش رہنے، سوچنے، تنہائی سے دوستی کرنے اور خود کلامی کی عادت پڑتی ہے۔ بھٹو کے بارے میں ایک باخبر صاحب بتایا کرتے تھے کہ وہ بعض اوقات جیل کے کمرے میں یوں بولنا شروع کر دیتے تھے جیسے کسی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں۔ اِس سے اُن کا اندر کا غبار بھی چھٹ جاتا تھا اور عوامی جلسوں سے خطاب کرنے کا نشہ بھی پورا ہو جاتا تھا، البتہ میں کبھی کبھی یہ سوچ کر تھوڑا سا فکر مند ہو جاتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو تو خوشامد کی لت پڑ جاتی ہے۔ وہ کھانے کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن خوشامد کا حلوہ کھائے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے اور جیل میں یہ حلوہ میسر نہیں ہوتا۔ گاندھی جی تحریک آزادی کا اہم کردار تھے۔ عام زندگی کی طرح وہ جیل میں بھی تجربات کرتے رہتے تھے۔ مطالعے کے علاوہ چرخا کاتنا اُن کی سب سے بڑی مصروفیت تھی۔ وہ جیل میں احتجاجاً بھرت بھی رکھ لیتے تھے۔ وزن کم ہوجاتا تو جیل کے انگریز سپرنٹنڈنٹ کو فکر لاحق ہوجاتی اور اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتیں کیونکہ انگریز بہادر کو اچھی طرح علم تھا کہ اگر گاندھی کو جیل میں کچھ ہو گیا تو عوام ملک کو جلا کر راکھ کردیں گے۔ وہ دور رخصت ہو چکا۔ وہ زمانہ کچھ اور طرح کا تھا اور عوام بھی کچھ اور طرح کے تھے جو لیڈر کی ایک کال پر سارے ملک کو جام کر دیتے تھے۔ اب کیا ہوتا ہے، بھٹو صاحب ایک مقبول کرشماتی لیڈر تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے انہیں جعلی انداز سے پھانسی چڑھا دیا۔ احتجاج اس قدر ضعیف تھا کہ چند پولیس والے صورتحال پر قابو پانے کے لئے کافی تھے۔ آرمی کو خواہ مخواہ الرٹ کیا گیا، محض ایک خوف اور ’’ہوے‘‘ کے تحت پھر وہ ہوّا غبارے کی مانند پھٹ گیا۔ ایک جرنیل کو میں نے اس موقع پر طنزاً مسکرا کر کہتے سنا ’’ہمیں مایوسی ہوئی، ہم خوفزدہ تھے، احتجاج سے درو دیوار ہلنے کا خطرہ تھا، کچھ بھی نہ ہوا‘‘۔ میاں نواز شریف ایک مقبول لیڈر ہیں۔ ان کا ووٹ بینک مضبوط ہے، تاجر طبقہ خاص طور پر ان کا حامی ہے۔ اکتوبر 1999میں پرویز مشرف ان کے اقتدار کا تخت الٹ کر ڈر رہا تھا، جس رات اُنہیں گرفتار کیا گیا اگلی صبح گنتی کے چند لوگ کاسمیٹک احتجاج کرتے پائے گئے۔ اِس موقع پر بھی ایک جرنیل نے اُسی طرح کے اطمینان کا اظہار کیا۔ اب بھی مخالفین مطمئن ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) مل بھی جائیں تو کچھ نہیں ہو گا۔ مولانا فضل الرحمٰن مدرسوں کے بچوں کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ دوسری طرف وفاق المدارس پہلے ہی کچھ خدشات کا شکار ہے۔ حکومت صورتحال سنبھال لے گی اور ایک بار پھر ’’انہیں‘‘ حیرت ہو گی کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔

اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میاں صاحب کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے یا اُن کا ووٹ بینک کم ہوا ہے۔ وہ آج بھی ایک مقبول لیڈر ہیں۔ انتخابات ہوں تو وہ پہلے سے زیادہ ووٹ لیں گے۔ ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ اور ان کے ٹکٹ یافتہ عوامی حمایت سے فیض یاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے لیکن ا ن سے احتجاج کی توقع عبث ہے۔ چوری کھانے والے طوطے پنجروں میں ٹائیں ٹائیں کر سکتے ہیں لیکن سڑکوں پر نہیں ۔ رہی پی پی پی تو یقین رکھئے، اُس میں بھی وہ دم خم نہیں جو دو تین دہائیاں قبل تھا۔ بھٹو رہا نہ بینظیر، نہ ضیاء الحق، نہ غلام اسحاق خان اور نہ ہی پرویز مشرف۔ نہ ہی وہ جیالے کارکن اور زندگیوں کو دائو پر لگانے والے دیوانے۔ بلاول ابھی زیر تربیت ہے۔ عملی سیاست کے پیچ و خم سمجھنے کے لئے اپنے والد صاحب کا مرہون منت ہے۔ دولت کے اسیراحتجاجی سیاست کے گر نہیں سکھا سکتے۔ ان میں وہ ’’جوہر‘‘ ہی نہیں ، البتہ وہ سازش کرسکتے ہیں ۔ وہ تو خود ہمیشہ تختہ مشق بنتے رہے۔ اِس لئے دریں حالات کسی بڑی احتجاجی تحریک کا امکان کم ہے اور ایسی تحریک ناممکن جو زرداری صاحب کو جیل جانے سے بچائے یا میاں صاحب کو رہائی دلوائے۔ میاں صاحب کو ریلیف عدالتوں سے ملے گا اور وہی اُن کے لئے سودمند ہے۔ ویسے تو سچ یہ ہے کہ میاں صاحب کا جیل جانا اُن کے لئے بھی بہتر ہے۔ اُن کی تربیت ہو رہی ہے۔ وہ خود احتسابی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ وہ خوشامدیوں اور مالشیوں کے بغیر زندہ رہنے کی خوبی پروان چڑھا رہے ہیں۔ شاید آپ نہ مانیں کہ میاں صاحب کے ’’بگاڑ‘‘ کا آغاز اِنہی مخلص خوشامدیوں کی ذہنی مفلسی کا شاہکار تھا۔ ہر ایشو مزاحمت کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔ خوشامدی زبان نے میاں صاحب سے جہاں مزاحمت کروائی وہ مقام احتیاط سے گزرنے کا متقاضی تھا۔ بڑا لیڈر مزاحمت سے نہیں بلکہ حکمت سے بنتا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تاریخ میں حکمت کی سیاست کا سب سے بڑا رول ماڈل قائد اعظم محمد علی جناح ہیں، جنہیں گاندھی، نہرو اور اُن کے سیاسی چیلے ’’جیل نہ جانے‘‘ کا طعنہ دیتے تھے۔ قائد اعظم نے حکمت سے کام لے کر جیل جانے والوں سے بہتر نتائج حاصل کئے، تاریخی کارکردگی دکھائی اور حکمت سے وہ کچھ حاصل کر لیا جو لیڈران دہائیوں کی قید و بند سے بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ علاج کے حوالے سے آج کل میاں صاحب مزاحمت کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ اُن کا اپنا فیصلہ ہے، جس میں حواری شامل نہیں۔ اُن کا ووٹ بینک توڑنے، اُن کا سیاسی قد گھٹانے، اُنہیں عوام کے دلوں سے مٹانے اور اُن کی جماعت کے ٹکڑے کرنے والی آرزوئوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور خواب بکھر رہے ہیں۔ اسپتالوں اور حکومتی علاج کا بائیکاٹ ضد کی علامت نہیں۔ یہ سیاست ہے، یہ مزاحمتی تحریک کا تصور ہے۔ جب پارٹیاں مزاحمتی تحریک منظم نہ کر سکیں تو پھر لیڈر کو میدان میں کودنا پڑتا ہے۔ اِس طرح مثال بنتی ہے اور مثال عمل کی شمع جلاتی ہے، میاں صاحب ضدی ہر گز نہیں البتہ وہ سیاست کے گُر اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔ وہ نہ اندر سے ٹوٹے ہیں اور نہ ہی ان کے دم خم میں کمی آئی ہے۔ اُنہوں نے خود قید منتخب کر کے اور بیگم کی جدائی و موت برداشت کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ خوف، غم، صدمات اور محرومیوں کا بہادری سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ صدمات کے پہاڑ اُن کے عزم کو کمزور نہیں کر سکے یہ گواہی بلاول نے بھی دی ہے۔ سیاسی سزائیں پانی کا بلبلہ ہوتی ہیں اور سیاستدانوں کی تربیت کر کے اُنہیں بہتر اور پختہ بنا جاتی ہیں اور ہاں جتنا بڑا انعام اُسی قدر بڑی آزمائش، مگر ہر آزمائش کو بہرحال ختم ہونا ہوتا ہے۔ یہی قدرت کا اصول ہے، رہے شہباز شریف تو اب ہائیکورٹ سے لے کر پنجاب حکومت تک ان کی ایمانداری کی گواہی دے رہے ہیں، رسوائی کس کی ہوئی؟ نیب کی یا میاں شہباز شریف کی؟

تازہ ترین