• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانیت کو جنگ کی بھٹی میں دھکیلنے کا کوئی بھی اقدام مذموم ہے اور امن و آشتی فراہم کرنے کی ہر سعی محمود۔ امن پسندی دراصل جنگ، جارحیت اور تشدد سے گریز بلکہ مخالفت کا نام ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے اسی کا داعی رہا ہے کہ دین اسلام بھی اسی طرز عمل کا حکم دیتا ہے۔ صدشکر کہ پاکستان کی اس ضمن میں کی گئی کاوشیں ثمربار ہو رہی ہیں ورنہ بھارت کی سیاسی قیادت اور میڈیا تو اپنے جارحانہ طرز عمل اور جنگی جنون سے دونوں ایٹمی قوتوں کو جنگ کے دہانے پر لے آیا تھا۔ پاکستان نے جنون کے مقابل تدبر و تحمل اور حکمت آمیز رویہ اپنایا، جس سے کشیدگی میں بتدریج کمی آتی چلی گئی۔ پاکستان نے اس ضمن میں ایک اور احسن قدم یہ اٹھایا کہ کرتار پور راہداری پر باضابطہ مذاکرات کیلئے اپنا وفد بھارت بھیج دیا جو ایک مثبت پیش رفت ثابت ہوا، دونوں ملکوں نے راہداری منصوبہ جلد آپریشنل کرنے پر اتفاق کیا اور برسوں بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اجلاس انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوا بھارتی وفد کی قیادت بھارتی وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری ایس سی ایل داس جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے کی۔ دونوں اطراف سے معاہدے کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی بحث ہوئی اور راہداری پر کام کا آغاز کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک کے حکام میں اگلی ملاقات 2اپریل کو واہگہ بارڈر پر ہونا طے پائی جو 19مارچ کو الائنمنٹ کو حتمی شکل دینے کیلئے زیرو پوائنٹ پر تکنیکی ماہرین کے اجلاس کے بعد عمل میں آئے گی۔ مذاکرات کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستانی وفد کے سربراہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ بہت مثبت بات چیت ہوئی تاہم بعض معاملات پر ابھی اختلاف ہے جس کی تفصیل بتائی نہیں جا سکتی، امید ہے کہ 2اپریل کی ملاقات میں معاملات کا حل نکل ا ٓئے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ 3برس بعد دونوں ممالک کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہونا ایک بڑی کامیابی ہے۔ کرتار پور راہداری دراصل سکھوں کو اُن کے اُس مقدس مقام تک باآسانی رسائی دینے کا منصوبہ ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک نے زندگی کے آخری ایام گزارے۔ منصوبے کے تحت کرتار پور بارڈر پر ٹرمینل کی تعمیر ہو گی، راوی پر پل بنے گا اور سکھ زائرین کو ویزے کے بغیر اسپیشل پرمٹ پر رسائی دی جائے گی۔ یہ مکمل طور پر ایک مذہبی منصوبہ ہے اور پاکستان کے اخلاص کا مظہر، دنیا کا کوئی بھی قانون کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو ان کے مقدس مقامات تک رسائی سے نہیں روکتا اور نہ روکنا چاہئے بلکہ ممکن ہو تو اس معاملے کو سہل بنانا چاہئے، پاکستان کا مطمح نظر بھی یہی ہے۔ افسوس کہ اس اقدام کو بھی بھارت میں سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تاہم بھارتی پنجاب اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کے بعد بھارت کو اس منصوبے کی طرف آنا ہی پڑا جس کا نتیجہ 14مارچ کو دونوں ممالک کے بھارت کے سرحدی علاقہ اٹاری میں ہونے والے مثبت مذاکرات ہیں جو بلاشبہ قیام امن کیلئے خشت اول بن سکتے ہیں۔ بھارت کو سوچنا ہو گا کہ دونوں ملکوں کی مخاصمت میں اگر اب تک کسی کا بھلا نہیں ہوا تو آئندہ بھی نہیں ہو گا۔ دونوں ملک کاغذ کے نقشے پر کھنچی لکیریں نہیں کہ مٹائی جا سکیں یہ زندہ حقیقتیں ہیں اور دانش مندی حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہے، اس سے نظریں چرانے میں نہیں۔ دونوں ملکوں کے کروڑں عوام بھوک اور بدحالی کا شکار ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں کہ جنگ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے مل کر بھوک و بدحالی کیخلاف لڑی جائے؟ یہ بھی کہ اب روایتی جنگوں کا تو دور ہی نہیں، اب اگر جنگ ہوئی تو گویا قیامت صغریٰ ہو گی جس سے کوئی بھی نہیں بچ پائے گا۔ امن انسانیت کا اولین حق ہے، اِس سے روگردانی جرم عظیم ہے، بہتری اسی میں ہے کہ مخاصمت کو محبت میں تبدیل کرنے کی سعی تیز کی جائے۔ کرتار پور مذاکرات کے سلسلے کو دراز کرتے ہوئے یہ سفر تب تک جاری رکھا جائے جب تک تمام تنازعات آبرومندانہ طریقے سے حل نہیں ہو جاتے۔ آخر کب تک نفرت کے ببول کی انسانی لہو سے آبیاری کی جاتی رہے گی، وقت آ گیا ہے کہ محبت کے گلاب اگائے جائیں۔

تازہ ترین