• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت میں زبوں حالی کی کیفیت خواہ سابقہ حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ ہو یا اِس کی وجوہ کچھ اور ہوں، پچھلے سات ماہ سے اُس کی حالت بہتر بنانا موجودہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ تین ممالک سے ملنے والی رقوم وقتی ریلیف دینے اور معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے کا ذریعہ تو ہیں مگر مہینوں کے مخمصے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کی ضرورت کئی چیلنجوں کی سنگین تر صورتحال کی نشاندہی کرتی محسوس ہو رہی ہے۔ محصولات جمع کرنے والا وفاقی ادارہ، جو اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کہلاتا ہے، پچھلے ادوارِ حکومت میں نام کی تبدیلی کے تجربے سے گزرنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بار بار کئے گئے دعوئوں کے باوجود ایسے مقام پر نظر آ رہا ہے جہاں وزیراعظم عمران خان نیا ایف بی آر بنانے کا انتباہ دیتے نظر آ رہے ہیں۔ جمعرات کے روز اِس ادارے کے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ایک لاکھ 52ہزار بیرون ملک پاکستانیوں کے اکائونٹس کی تفصیلات حاصل ہونے کا جو انکشاف کیا، اس سے متعلق معاملات پر اس بار ماضی کے ایسے ہی انکشافات کے برعکس تیزی سے کام ہوا تو اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ تاہم ٹیکس امور کے ماہرین کا یہ تجزیہ نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ ایف بی آر سے متعلق پالیسی اور ایڈمنسٹریشن کے انتہائی ضروری گرائونڈ ورک میں پہلے سے ہو چکی 6ماہ کی تاخیر میں مزید توسیع مشکلات پیدا کرے گی۔ ایسے معاشرے میں جہاں دستاویزی تنخواہ دار ملازمین سے آگے بڑھ کر ٹیکس دینے والوں کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہو وہاں جمعرات کے روز لاہور میں برانڈرتھ روڈ پر ٹیکس حکام کے چھاپے کے بعد نظر آنے والا ہڑتال کا منظر برسوں سے کوئی انوکھی چیز نہیں۔ لوگوں کو ٹیکس کلچر کی طرف لانے کیلئے علماء، صلحا، کمیونٹی رہنمائوں اور منتخب عوامی نمائندوں کو متحرک کرنے کے علاوہ تعلیمی نصاب کے ذریعے ذہن سازی پر بھی توجّہ دینا ہو گی۔ کوشش کی جانی چاہئے کہ موجودہ حکومت پر اب تک قائم عام آدمی کے اعتماد کو مہنگائی کے نئے تازیانوں سے بچایا جائے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین