• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے مودبانہ انداز میں پوچھا ”قاضی صاحب! کیا جماعت ایک بار پھر ایم ایم اے کے کوئے ملامت میں جانے پر آمادہ ہے“۔ مجھے ہرگز اندازہ نہ تھا کہ ایم ایم اے کی شیرازہ بندی اب بھی قاضی صاحب کی آرزو اورترجیح ہے۔ بولے ”ایم ایم اے کو آپ کوئے ملامت نہ کہیں یہ اتحاد امت کا مظاہرہ اور تجربہ تھا مگر مذہبی قیادت کی ناتجربہ کاری اور مختلف جماعتوں کی غلط حکمت عملی کے علاوہ بعض درپردہ قوتوں کی سازشوں کی وجہ سے پائیدار ثابت نہ ہوا“۔
یہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل ایوان اقبال کی ایک تقریب میں قاضی صاحب سے میری آخری ملاقات تھی۔ انہوں نے ایم ایم اے کی شکست و ریخت کا تنہا ذمہ دار مولانا فضل الرحمن کو قرار دینے سے اجتناب کیا اور وہ باتیں بتائیں جو میں ایک نجی محفل میں مولانا سے سن چکا تھا۔ وقت رخصت قاضی صاحب نے تفصیلی ملاقات کی دعوت دی جس میں ایم ایم اے کے مستقبل اور ملی یکجہتی کونسل کے احیاء و ایجنڈے پر قاضی صاحب اپنا نقطہ نظر وضاحت سے بیان کرسکیں۔ کیا خبر تھی یہ نوبت اب کبھی نہ آئیگی۔
قاضی صاحب سے نیازمندی کا آغاز 1980ء کے عشرے کے اوائل میں ہوا۔ تعلقات میں اپنائیت اور گرم جوشی ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل کے وقت پیدا ہوئی۔ تعزیتی ریفرنس میں قاضی حسین احمد اور جنرل (ر) حمید گل نے میرے عزیز بھائی صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی مرحوم کے کردار کو مذہبی جماعتوں کے اس غیر سیاسی اتحاد کی تشکیل میں کلیدی قرار دیا تھا، اس لئے میں دونوں کی محبت کا مستحق ٹھہرا۔ قاضی صاحب نے ایک بار محبت، شفقت اور پسندیدگی سے نوازا تو پھر بعض مواقع پر میرا اختلاف اور گستاخی بھی نیاز مندی کے اس رشتے میں دراڑ نہ ڈال سکی۔
اتحاد امت قاضی صاحب کی آرزو تھی، مسالک کے فروعی اختلافات کے خاتمے کے لئے ملی یکجتہی کونسل کے وجود کو وہ باعث برکت سمجھتے تھے اور حالیہ دنوں میں اس کا احیاء دراصل اس خواہش کا آئینہ دار تھا کہ مذہبی انتہا پسندی، فروعی اختلافات اور ملکی تعصبات کا خاتمہ ہو اور اسلام کا رخ روشن دنیا کے سامنے امن و سلامتی کے مذہب کے طور پر ابھرے ۔مذہبی عناصر کے خلاف بغض و عناد کا مظاہرہ کرنے والے عناصر کا منہ بند بھی اسی طرح کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ ان دنوں علامہ طاہر القادری کی کردار کشی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں، اسلامک فرنٹ کی تشکیل کے وقت قاضی صاحب کے خلاف اسی طرح سرگرم عمل تھے مگر بعد میں سب کو یہ ماننا پڑا کہ قاضی صاحب کا اخلاص، بے لوثی، للہیت اور نیک نفسی ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر تھی اور وہ اسلام کے سچے پیروکار، پاکستان کے حقیقی خیرخواہ اور سیاست میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بدکردار سیاستدانوں کی پیداکردہ قباحتوں کے خاتمے کے لئے دل و جان سے جہد آزما تھے۔
خورشید گیلانی صاحب کی وفات پر تعزیت کے لئے حضرت مولانا شاہ احمد نورانی میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو دیرینہ نیاز مندی اور طالب علمانہ بے تکلفی کا فائدہ اٹھا کر میں نے ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ سے پوچھ ڈالا ”اہل منصورہ“ سے خوب نبھ رہی ہے؟ شرارتی سوال کا پس منظر واضح تھا۔ حضرت بولے ”سچ پوچھئے تو قاضی صاحب کی محبت، اخلاص اور دینی غیرت ساری سیاسی رنجشوں اور ملکی اختلافات پر حاوی ہے ہم تو سیاسی طور پر پس منظر میں چلے گئے قاضی صاحب نے ہمیں زندہ کر دیا“ پھر کافی دیر تک قاضی صاحب کی خوبیاں بیان کرتے رہے۔
قاضی صاحب نہ تو ابلہٴ مسجد تھے نہ تہذیب کے فرزند، مطالعہ بے حد وسیع تھا، شعر و ادب سے لگاؤ اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سننے کا حوصلہ۔ اقبال کے وہ شیدائی تھے اس لئے مرکزیہ مجلس اقبال کی محافل میں خصوصی طور پر بلائے جاتے اور مجاوران اقبال کو ان کی بے باکانہ گفتگو سننی پڑتی جس میں اقبال کے اشعار سے نظریہ وطینت کی بیخ کنی اور مادر پدر آزاد جمہوریت کی تباہ کاریوں کی تصویر کشی کی جاتی مگر کسی کو مجال سخن نہ ہوتی۔
درویش صفت قاضی صاحب اپنی جماعتی وابستگی اور سیاسی گروہ بندی کی وجہ سے بعض حلقوں کے لئے بیگانہ اور اجنبی رہے ورنہ عجز و انکسار، ناقدین و مخالفین کو گلے لگا کر مسکرانے کی عادت اور وسیع المشربی کی بنا پر وہ پکے صوفی تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذکر پر آنسو بہانے، ہمیشہ باوضو رہنے اور کثرت سے درود پاک کا ذکر کرنے والے اس صوفی سے اجنبیت قوم کی بدقسمتی ہے حالانکہ ایسے لوگ رانجھا سب دا سانجھا ہوتے ہیں۔
31دسمبر کو قاضی صاحب سے فون پر آخری بار بات ہوئی، دمے کی تکلیف سے نڈھال تھے اور بتایا کہ وہ میری بیٹی آمنہ شاہ کے ٹی وی پروگرام میں نہیں آپائیں گے۔ آمنہ اور سمیحہ راحیل قاضی صاحب کی صاحبزادی ریحام قاضی سکول فیلوز ہیں اور بچپن اکٹھے گزرا ہے اس لئے شفقت کرتے۔ دوسرے دن سمیحہ راحیل قاضی سے گھنٹہ بھر ملاقات میں دونوں کی معصوم شرارتوں کا ذکر رہا۔ سمیحہ بی بی مطمئن تھیں کہ معمولی تکلیف ہے ، دو تین دن میں ٹھیک ہوجائیں گے آمنہ کی ایک معصوم شرارت پر سمیحہ قاضی کہنے لگیں ”قاضی صاحب پسند نہیں کرتے کہ میرا تعارف ان کے حوالے سے ہو، وہ کہتے ہیں تم اپنی پہچان خود ہو، اپنی شخصیت اور خدمات پر اعتماد کرو، عورت صرف ماں باپ، بہن بھائیوں اور خاوند کے حوالے سے ہی کیوں پہچانی جائے؟“۔
یہ خواتین کے بارے میں ایک قدامت پسند مذہبی رہنما کا نقطہ نظر تھا اس ملک ا ور معاشرے میں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امریکہ و یورپ میں پلے بڑھے نوجوان مردوخواتین زندگی بھر ماں باپ کے نام کا ڈھول پیٹتے اور بسا اوقات برادری قبیلہ تک تبدیل کرلیتے ہیں۔ میں قاضی صاحب کی لاہور آمد کا منتظر تھا۔ بہت کچھ سننے اور سیکھنے کا خواہش مند مگر اب ڈاکٹر لقمان قاضی، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، محمد قاضی اور بیٹی ریحام قاضی کے لاہور لوٹنے کا انتظار کر رہا ہوں تاکہ جاکر پرسہ دوں اورایک پاکباز، پاک طینت اور سراپا خلوص بزرگ کی یادوں سے اپنے قلب و روح کو منور کر سکوں، کل من علیہان فان۔
تازہ ترین