• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ اکثرسوال کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری لاکھوں افراد کو اپنے ساتھ لے کر اسلام آباد جا سکتے ہیں تو ان لاکھوں افراد سے ووٹ کیوں نہیں لے سکتے ووٹ سے تبدیلی کیوں نہیں لا سکتے ۔پتہ نہیں ڈا کٹر طاہر القادری اس سوال کا کیا جواب دیتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ کرپٹ جمہوری نظام میں ووٹ کی پرچی سے پاکستان میں تبدیلی ممکن نہیں۔دراصل ایم این اے کی ہر نشست پر دو تین ہی ایسے امیدوار ہوتے ہیں جن میں سے کسی ایک نے ایم این اے بننا ہوتا ہے ۔جن میں اکثریت انہی کرپٹ لوگوں کی ہے یا ان کے عزیزوں رشتہ داروں کی ہے جو جنرل ضیا کے 1985کے غیر جماعتی انتخابات سے پاکستان کی سیاست میں وارد ہوئے اور جنرل ضیاء کے ساتھ مل کر پاکستان کے سیاسی منظرنامہ کو کرپشن نامہ بنا دیا۔ان میں آدھے سے زیادہ لوگ جاگیردارانہ پس منظر رکھتے ہیں اور سرمایہ دارطبقے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔نودولتیوں کی تعداد سب سے اتنی زیادہ ہے جس کی طرف نگاہ اٹھائیں وہی پچھلے تیس بتیس سال میں ارب پتی بناہے ۔یہ لوگ الیکشن جیتنے کیلئے ہر کام کو جائز سمجھتے ہیں ۔میں نے خود ایک بہت ہی اصول پرست ایم این اے کے امیدوار سے یہ جملہ سنا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اور انتخابات ایک امیدوار کیلئے جنگ کی طرح ہوتے ہیں ۔ہر امیدوار الیکشن لڑتے ہوئے حالتِ جنگ میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کی یہ دلیل بھی درست نہیں اور انہوں نے یہ دلیل دی بھی اصل بات کو چھپانے کیلئے ۔کون نہیں جانتا کہ یہ ایم این اے کے سرمایہ دار اور جاگیردار امیدوار الیکشن صرف اپنی مالی طاقت بڑھانے کیلئے لڑتے ہیں۔کم از کم چار سے پانچ کروڑ روپے ہر امیدوارکیوں خرچ کرتا ہے صرف اس لئے کہ اسے یقین ہوتاہے الیکشن جینے کے بعد اسے چار پانچ ارب واپس مل جائیں گے۔یہ وہ بنیاد ہے جس نے رفتہ رفتہ نوے فیصد پاکستانیوں کو کرپٹ کردیا ہے۔پچھلے چار پانچ انتخابات میں جیتے والے امیدواروں کے گھر بھرتے بھرتے پوری قوم اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ہر گلی اور ہر کوچے میں اندھیرے کی حکمرانی ہے۔ ہر چور اور ہر ڈاکو جس کے پاس دولت موجود ہے وہی صاحبِ عزت بن گیا ہے ۔ ملک میں عزت اور ذلت کے معیار بدل گئے ہیں ۔اب چور صرف وہی ہے جو چند سو یا چند ہزار چراتا ہے ۔جو لاکھوں اور کروڑوں چراتے ہیں وہ چور نہیں سیاست دان ہیں اورجو اربوں،کھربوں چراتے ہیں وہ تو پوری سیاسی پارٹیوں کے مالک ہیں۔
وہ لوگ دورانِ اقتدار کمیشن کی چونی بھی نہیں چھوڑتے حتی کہ اپنی انتخابی مہم بھی سرکاری خرچ پرجاری رکھتے ہیں۔ انتخابات کے دنوں میں بڑے دریا دل دکھائی دیتے ہیں۔ تجوریوں کے طاقچے وا کر دیتے ہیں نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں ۔ایک ایک ووٹ کی قیمت اتنی ادا کرتے ہیں کہ لینے والے پریشان ہوجاتے ہیں ۔ووٹر کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہی وقت ہے جو ان سے نکلتا ہے نکال لے ۔پھر ہر شخص کویہ معلوم ہوتا ہے کہ انہی دو میں سے کسی ایک نے جیتنا ہے اس لئے لوگوں کے مفادات انہی دو کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں اور یوں بڑے چوروں کا آپس میں مقابلہ ہونے لگتا ہے۔ شریف امیدوار اگر ہمت کر کے اپنے کاغذاتی نامزدگی جمع بھی کرادے تو اس کا کیا حشر ہوتا ہے اس کی تفصیل بتانا کچھ ضروری نہیں۔پاکستان میں ہر شخص اس کا انجام جانتا ہے۔یہ سرمایہ دار امیدوار ایسے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں کہ آدمی پریشان ہوجاتا ہے ایک واقعہ میں اپنے شہر میانوالی کا سناتا ہوں ۔ گذشتہ دنوں میں میانوالی میں اپنے عزیز دوست امجد خان کے پاس گیاوہ مرحوم ڈاکٹر شیر افگن خان کے فرزند ہیں میں نے انہیں مشورہ دیاکہ وہ تحریک ِ انصاف شامل ہوجائیں ۔ تحریک ِ انصاف آپ کو ایم این اے کا ٹکٹ نہ دے تو ایم پی اے ضرور دے دے گی یوں آپ کی کامیابی یقینی ہوجائے گی مگر وہاں بیٹھے دس پندرہ لوگ پاگلوں کی طرح مجھے یہ سمجھانے لگے کہ امجد خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے ایم این اے کی نشست پر بڑے مارجن کے ساتھ کامیاب ہوجائیں گے ۔میں خاموش ہوگیا البتہ میں نے ان کے چہروں کو بغور دیکھا دوسرے دن شہر میں کچھ اور لوگوں سے بات ہوئی تو انہوں نے بھی یہی کہا مگر شام کوجب تنہائی میں میں نے غورکیا تو ایک ایک چہرہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگا تو مجھے احساس ہوا کہ ان میں سے زیادہ ترلوگ وہ تھے جو روکھڑی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس وقت اس نشست سے حمیر حیات روکھڑی ایم این اے ہیں ۔ مجھے علم ہوگیا کہ یہ مہم روکھڑی گروپ نے چلا رکھی ہے کہ انعام اللہ نیازی جو تحریک انصاف کے اس نشست سے ایم این اے کے امیدوار ہیں کہیں وہ اور امجد خان ایک نہ ہوجائیں کیونکہ ان کے ایک ہوجانے کے بعد حمیر حیات روکھڑی جو نون لیگ کے امیدوار ہیں وہ الیکشن سے فارغ ہو جائیں گے ان کی جیت کی کوئی امکانی صورت تب ہی نکل سکتی ہے کہ انعام اللہ خان نیازی کے علاوہ امجد خان بھی ایم این اے کے اس نشست پر امیدوار نہ ہوں ۔اس طرح کی سیاست جہاں ہو وہاں آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ کوئی شریف آدمی بھی الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچ سکتا ہے ۔
مجھے یہ بھی علم ہے کہ اگر امجد خان ایم این اے کی نشست پر آزاد امیدوار ہونے کی بجائے تحریک ِ انصاف کی طرف سے ایم پی اے کے امیدوار ہوجائیں تو یہ نون لیگ کا امیدوار ایک دو امیدواروں کو الیکشن لڑنے کیلئے خود کھڑے کرائے گا تاکہ وہ انعام اللہ خان نیازی کے ووٹ کاٹ سکیں ۔برادری ازم کو جگایا جائے گا۔مختلف پیران کرام کی وساطت سے ووٹ مانگے جائیں گے ۔یہ امیدوار کتنے ظالم ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انہوں نے اپنے حلقے میں اپنے ذاتی تعلق والے یاخریدے ہوئے ایس ایچ او تھانوں میں لگوائے ہوتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ کونسا ووٹر ان سے ذراسا باغی ہو رہا ہے۔کس کے تیور ٹھیک نہیں لگ رہے ۔تھانے کے ایس ایچ او کو اشارہ کرتے ہیں وہ اس خاندان کے کسی فرد کوکسی مقدمہ میں شامل کرکے گرفتار کرلیتا ہے پھر خود اس خاندان کے کسی بڑے کے ساتھ تھانے میں پہنچ جاتے ہیں اور اسے چھڑا کر لے آتے ہیں ۔اور اپنے ووٹر کو اپنے احسان کے بوجھ تلے دبالیتے ہیں ۔بیچارہ انہیں ووٹ نہ دے تو کسے دے۔
اب ایسے امیدواروں کے درمیان ہونے والے نئے انتخابات کے نتیجے میں کیسی اسمبلی وجود میں آئے گی یقینا ایسی ہی ہوگی جیسی اب ہے جس نے ملک کو تباہی کے آخری دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس صورت حال میں ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد امید کی ایک تابناک کرن کی طرح ہے ۔جہاں تک الطاف حسین کے ساتھ دینے کا تعلق ہے تو یہ بات ذہن میں رکھئے کہ ایم کیو ایم وہ واحد پارٹی ہے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو اپناٹکٹ نہیں دیتی اس کے ایم این اے اور وزیر عام لوگ ہوتے ہیں ۔میرے دعا ہے کہ پورے ملک سے ایسے ہی امیدوار اسمبلی میں پہنچیں اور اس وقت عمران خان سے یہی توقع کی جارہی ہے۔اللہ تعالی ڈاکٹر طاہر القادری ، الطاف حسین اور عمران خان کو اس مقصد میں کامیاب فرمائے ۔
تازہ ترین