• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تجمل حسین خان ، حیدرآباد

ضلع حیدرآباد کو سیف سٹی بنانے کے لیے شہر بھر میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا منصوبہ ہنوز تعطل کا شکار ہے۔ محکمہ پولیس سندھ میں دو سال قبل سابق آئی جی، اے ڈی خواجہ نے صوبے سے جرائم کے خاتمے اور امن و آشتی کے قیام کے لیے مختلف پروگرامز ترتیب دیئے تھے جن میں مذکورہ منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس دور میں،سندھ پولیس پر سے سیاسی اثر رسوخ ختم کرکے مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے کے مواقع دینے کے علاوہ، جدید اسلحہ و آلات سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس میںجدید سائنسی ٹیکنالوجی کو بھی متعارف کرایا ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے سندھ بھر میں کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم (سی آر ایم ایس) کا قیام عمل میں لایا گیا اور سکھر سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں سی آر او سینٹرز اور آئی ٹی لیب بنائی گئیں۔ جدید سسٹم کی بدولت جرائم پیشہ عناصر کی گرفتار ی میں کافی مدد ملی ہے، سندھ اور پنجاب کے تمام تھانے آپس میں اس آن لائن سسٹم کے ذریعےمربوط ہیں اور ایک دوسرے کے مطلوب ملزمان کے حوالے سے معلومات حاصل کرکے گرفتاریاں عمل میں لا رہے ہیں۔اس وقت ڈی آئی جی سلطان خواجہ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ ایس ایس پی حیدرآباد، سرفراز نواز نے نمائندہ جنگ کے ساتھ ملاقات میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب نہ ہونے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیف سٹی منصوبہ کی حیدرآباد میں شدید ضرورت ہے کیونکہ یہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں ایک ہزار سے 5سو تک کی تعداد میں کیمروں کی ضرورت ہے لیکن فی الحال اس منصوبے پر کوئی کام شروع نہیں ہوسکاہے۔جرائم کے خاتمے کے لیے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں بتایا کہ اس نظام کے تحت ،تھانوں کی سطح پررپورٹنگ روم قائم کرکے انہیں جدیدکمپیوٹرسسٹم اورآلات بھی فراہم کردیئے گئے ہیںاوروہاںباقاعدہ آئی ٹی ماہرین تعینات ہیں جو تھانوں میں درج ہونے والی ایف آئی آر، ملزمان کے فنگرپرنٹس اوران کے جرائم کی تفصیلات کاڈیٹا، ان کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے نمبرکے ساتھ محفوظ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹنگ سینٹرز میں تھانوں کی حدود میں واقع ہوٹلوں‘ گیسٹ ہائوسز میں آنے والے مسافروں کے علاوہ کرائے پر دیئے جانے والے مکانوں‘دکانوں‘غیرملکی شہریوں اوردیگرضروری معلومات کا ڈیٹا بھی مرتب کیاجارہاہے جسے ایس ایس پی آفس میں واقع انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکشن کوبھیجاجاتاہے ، جہاں سے یہ ڈیٹا ریجن اورسندھ پولیس کے کراچی میں واقع ہیڈآفس میں قائم، آئی ٹی ڈپارٹمنٹ منتقل کیاجاتاہے جس کے سربراہ ڈی آئی جی سطح کے اعلیٰ عہدیدارہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تھانوں کی سطح پر استعمال ہونے والے کمپیوٹرز کے لئے الگ سافٹ ویئر تشکیل دیاگیاہے جب کہ ایس ایس پی آفس، ریجنل دفاتر اورہیڈ آفس میں مختلف سافٹ ویئر استعمال کئے جارہے ہیں ۔ایس ایس پی حیدرآباد نے کہا کہ چونکہ جرائم پیشہ افراد کاریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کاکام چند سال قبل شروع کیاگیاتھا، اس لئے گزشتہ 60،70 سالوں کا ڈیٹا، محکمہ پولیس کےکمپیوٹر سسٹم میں موجود نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تھانوں سے موصولہ جرائم پیشہ افراد کے ڈیٹا کی مدد سےاب جرائم پیشہ افرادکا ریکارڈکمپوٹر پر مرتب ہورہاہے ، اس جدید نظام کے قیام سے جرائم کی وارداتوںکی روک تھام میں مدد ملے گی ۔انہوں نے کہا کہ حیدرآباد پولیس نے شہر بھرمیں واقع رہائشی ہوٹلوں اورگیسٹ ہائوسز میں آنے والے مسافروں کے ریکارڈ کے لئے ایک سافٹ ویئر تشکیل دے کر، ہوٹلوں کے کمپیوٹر سسٹم کو ضلعی آئی ٹی سیکشن سے منسلک کردیاہے جس کے بعدہوٹل کے کمپیوٹر میں رجسٹرڈ ہونے والے نئے مسافر کی معلومات پولیس سسٹم کو بھی منتقل ہوجاتی ہیں۔ سندھ پولیس جدید دورکے تقاضوں کو مد نظررکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کررہی ہے جب کہ جرائم پر قابو پانے کے لئے بھی جدید ٹیکنالوجی سے بھرپوراستفادہ کیا جارہا ہے۔

ڈی آئی جی حیدرآباد، محمدنعیم شیخ نے ’جنگ‘‘ کے رابطے پر بتایا کہ تھانوں کی سطح سےلے کر، آئی جی آفس تک سندھ پولیس کاآئی ٹی ڈپارٹمنٹ متحرک اور فعال ہے ۔ڈی آئی جی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سلطان خواجہ کی قیادت میں یہ شعبہ پورے سیٹ اپ کے ساتھ کام کرہاہے ۔تمام اضلاع اپنے ریجن کے ساتھ آئی جی آفس سے مربوط ہیں ۔کراچی سمیت سندھ بھر کے شہروں کو سیف سٹی میں تبدیل کرنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کامنصوبہ حیدرآباد میں شروع نہ کئے جانے کے حوالے سے ڈی آئی جی نے کہا کہ ابتدائی طورپر یہ منصوبہ کراچی کے لئے شروع کیا گیا تھا، اس وجہ سے حیدرآباد سمیت دیگرشہروں میں اس پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوسکاہے ۔۔ حیدرآباد پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کا مؤقف اپنی جگہ درست ہے لیکن ملک بھرمیں جرائم پیشہ گروہوں کی منظم کاروائیوں اور دہشت گرد سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے سندھ پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کااستعمال تو شروع کردیاہے لیکن اس سلسلے میں ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ڈکیتی ‘راہ زنی، اغوا برائے تاوان اور اغوا کی وارداتوں ‘چھینی وچوری کی کئی گاڑیوں کی برآمدگی کے سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے محکمہ پولیس کو متعددکامیابیاں بھی دلوائی ہیں لیکن صورت حال مزید بہتربنانے کے لئے ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پولیس کلچر اور رویوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پولیس کے تفتیشی نظام کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔حیدرآباد اور اندرون سندھ جنرل پرویز مشرف کے تشکیل دیئے گئے پولیس آرڈر کے خاتمےکے بعد، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کاعہدہ اور علیحدہ محکمہ ختم کئے جانے کے باعث کیسز کی تفتیشی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ضلع حیدرآباد میں تھانوں کی سطح پر علیحدہ سے تفتیشی افسران تعینات نہ ہونے‘ ایف آئی آر میں خامیوں کے باعث بیشتر ملزمان عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں ۔اس ضمن میں تھانوں کی سطح پر افسران اورہیڈمحرروں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے جبکہ ترقیوں کانظام نچلی سطح پر بری طرح متاثرہے ‘کانسٹیبل بھرتی ہونے والا اہلکار کانسٹیبل ہی ریٹائرڈ ہوجاتاہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین