• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ ماں کی ممتا ، خدا کی محبت کا دوسرا روپ ہوتا ہے۔ ممتا کے جذبات نہ صرف بنی نو انسان بلکہ چرند، پرند، خونں خواردرندوں اور حشرات الارض میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اولاد کے لیےممتا کی قربانیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن گزشتہ ہفتے شہر قائد کی ایک ماں نے اپنی ہی بیٹی کو قتل کرکے بے لوث محبت کے رشتے کے تقدس کے بارے میں بھی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ 4 فروری کی شام کودو دریا پر،ڈیفنس فیز 8 میں فرحان شہید پارک کے قریب 28 سالہ خاتون، شکیلہ راشد نے حالات کے جبر سے گھبرا کر اپنی ممتا کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنے ہی جگر گوشے کو سمندر برد کردیا پھر خود بھی اپنی جان دینے کی کوشش کی ۔

بتایا جاتا ہے کہ 4فروری کو گولیمار کے علاقے کی رہائشی، شکیلہ زوجہ رشید نے اپنی ڈھائی سالہ معصوم بچی انعم کولے کر ساحل سمندر گھمانے کے بہانے دو دریا کے سنسان مقام پرپہنچی ۔ معصوم بچی انعم سمندر اور اس کی موجوں کو دیکھ کو خوشی سے نہال ہو رہی تھی لیکن اس بدنصیب کو معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ خوشی عارضی ہے۔ اس کی ماں اپنی بیٹی کی خوشی کودیکھ کر خوش نہیں بلکہ آبدیدہ تھی۔ اپنی اولاد پر جان چھڑکنے والی ماں جیسی ہستی نے اپنے ہی ہاتھوں سے معصوم انعم کو سمندر کی موجوں کی نذرکر دیا جو ایک انسانی المیے سے کم نہیں۔بچی کو سمندر میں پھینکے کے بعد وہ آہ و بکا کرنے لگی جس سن کر وہاں سے گزرنے والے لوگ اکٹھا ہوگئے۔ شکیلہ خود بھی سمندر میںچھلانگ لگانا چاہتی تھی لیکنانہوں نے اسے قابو میں کرکےپولیس کو اطلاع دی۔پولیس نےجائے وقوعہ پر پہنچ کرغوطہ خوروں کو طلب کیاجنہوں نے 20 گھنٹوں کی تلاش کے بعد بچی کی لاش سمندر سے نکالی۔ پولیس نے شکیلہ کو گرفتار کر کے دفعہ 302 کے تحت قتل کا مقدمہ نمبر 09/2019 درج کر لیاگیا۔

اس واقعے کے سلسلے میں متضاد کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ شکیلہ کے شوہر اور والد نے اسے ذہنی مریضہ قرار دیا ہے جب کہ محلے کے بعض افراد نے اسے گھریلو حالات کے جبر کا شکار بتایا ۔شکیلہ کے پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ شکیلہ کی شادی ،راشد سے 2011میں ہوئی تھی، جو شاید اس کے والدین کے مرضی کے خلاف تھی۔ 2016میں اس کے یہاں بچی انعم کی پیدائش ہوئی تھی۔ راشد نے بچی کی پیدائش کے بعد شکیلہ کو بیٹی سمیت گھر سے نکال دیاتھا۔ گھر سے نکلنے کے بعد شکیلہ بچی کو لے کر والدین کے گھر پہنچی تو اس کے والدین نے اسے گھر میں جگہ دینے سے انکار کردیا، اس کے بعد وہ شوہر کے گھر واپس آگئی تھی لیکن یہ سلسلہ اکثر و بیشتر چلتا رہتا تھا ۔ شکیلہ کے والد نے پولیس کو بیان دیا کہ شکیلہ ذہنی مریضہ ہے جس کی طبی دستاویز بھی موجود ہیں اس کا علاج بھی جار ی ہے۔ راشد شاہ نے بھی اپنے سسر کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے اپنی بیوی کو ذہنی مریضہ قرار دیا۔بعض لوگوں ایساانتہائی قدم صرف وہ مجبور ماں اٹھا سکتی ہے جس کے لیے اپنی بچی کے ساتھ سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہ ہو، خود کو اور اپنی بیٹی کو زمانے کے حوادث سے بچانے کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ ہو۔اس بات کا احساس شکیلہ کے شوہر اور والدین کے دل میں کیوں نہیں جاگا۔

ساحل پولیس اسٹیشن کے اہل کاروں کے مطابق ملزمہ خاتون کا شوہر راشد شاہ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں ملازم ہے، اگرچہ اس کی ذاتی رہائش ہے، تاہم ذرائع آمدنی محدود ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں وہ بیوی اور بچی کو ان کے ذاتی اخراجات کے لیے محض 100 روپے ہفتہ دیتا تھا جو بہت ہی کم تھے۔پولیس کے مطابق ملزمہ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ مالی تنگ دستی کی وجہ سے انتہائی پریشان رہتی تھی۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ نے اس کیس کے بارے میںایک نیا قانونی کلیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اسے’’قتل بالسبب‘‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدام پر پاکستان کی دفعہ 322 لاگوہوتی ہے۔لیکن قانون سے معمولی سی شدھ بدھ رکھنے والوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ صرف قتل ہی نہیں ، ہر جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔اس لیے جرم کے اسباب کے محرکات تلاش کرکے، مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے لائحہ عمل مرتبکیا جاناچاہیے،

شکیلہ نے ابتدائی بیان میںپولیس کو بتایا کہ میری رشید سے 8 سال قبل ہوئی تھی۔ 2016 میں بچی کی پیدائش ہوئی ، میرا شوہر اس کی پیدائش سے ناخوش تھا،جس کے بعدسے ہی شوہر نے ہر بات پر لڑائی جھگڑا معمول بنالیاتھاجس کے باعث میںذہنی اذیت کا شکاررہتی تھی۔ میرا شوہرایک نجی اسپتال میں لیب ٹیکنیشن ہےجب کہ میں نے بی بی اے کیاہے ۔ گھر کے معاشی حالات ابتر ہونے کی وجہ سے گزر بسر ہی محال ہو گیاتھا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے شوہر سے نوکری کرنے کی اجازت مانگی لیکن اس نے انکار کردیا۔ ایک ماہ قبل اس نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا، میں اپنے مائیکے گئی لیکن میرے والد نے بھی پناہ نہیں دی جس کے باعث میں بچی کو لے کردربدر پھرتی رہی ۔ اپنوں کے نامناسب رویئے، تنگ دستی اور مالی مشکلات اور سر پر میرے اور میری بچی کے لیے سائبان نہ ہونے کی وجہ سے میں نے دل برداشتہ ہو کر اپنی بیٹی سمیت دینا کو ہی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

شوہر کے روئیے کے بارے میںملزمہ کے بیان کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہجب مذکورہ واقعے کی اطلاع اسے دی گئی تو وہ فوری طور سے تھانے پہنچ گیا اور زیر حراست بیوی پر تشدد کرنا شروع کردیا ۔ وہ اسے بار بار کوس رہا تھا کہ ’’بچی کو مار دیا، یہ منحوس خود کیوں نہیں مری؟‘‘، تاہم پولیس اہل کاروں نے ملزمہ کو اس سے بچایا۔پولیس کے مطابق ملزمہ کے شوہر کے رویے کی بنا پر بچی کی لاش باپ کی بجائے بچی کے تایا کے حوالے کی گئی، جنہوں نے اس کی تجہیز و تکفین کی۔بعد ازاں شکیلہ کے والدین، رشتہ دار اور سسرال والے بھی ساحل تھانے پہنچ گئے۔ جب انعم کی لاش20 گھنٹے کی تلاش کے بعد تھانے لائی گئی تو اس وقت ہر آنکھ اشک بار تھی۔

پولیس نے ملزمہ شکیلہ کو عدالت میں پیش کر دیا جہاںاس کا مجسٹریٹ کے روبرو دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیا ن قلمبند کیا گیا جو پولیس کے لئےواقعے کا ثبوت ہو گا۔ کیونکہ شکیلہ نے اپنی بچی انعم کو سنسان جگہ سے سمندر میں پھینکا تھااور یہ اقدام کرتے وقت وہاں کوئی عینی شاہدموجود نہیں تھا ، اس لیے شکیلہ کا بیان مقدمے کی کارروائی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس نے نے اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ میری رشید سے 8 سال قبل پسند کی شادی ہوئی اور 2016 میں بچی کی پیدائش ہوئی جس پر وہ ناخوش رہتا تھا۔ بچی کی پیدائش کے بعدسے ہی شوہر نے ہر بات پر لڑائی جھگڑا معمول بنالیاتھاجس کے باعث میں شدید ذہنی اذیت کا شکاررہتی تھی۔ میں نے محسوس کر لیا تھا اس معاشرے میں میرے لئے کوئی جگہ نہیںہے اور اس صورت حال میں بچی کے مستقبل کی طرف سے بھی میں متفکر رہتی تھی کیونکہ شوہر مجھے ذہنی اذیت دیتا تھا اور گھر سے نکال دیتا تھا جب کہ میکے جاتی تو وہاںکہا جاتا تھا کہ تمہاری شادی ہو گئی ہے تمہاری سسرال ہی تمہارا گھر ہے یہاں نہیں آیا کرو۔ان حالات کے سبب میں اپناہوش حواس کھو چکی تھی اور مجھے مجبوراً یہ قدم اٹھانا پڑا۔ ماں کے ہاتھوں بچی کے قتل کے واقعے کو ایک ہفتہ سے زائد ہوچکا ہے، اس وقت ملزمہ شکیلہ جیل میں ہے لیکن پولیس کی جانب سے کیس کے سلسلے میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس بارے میں نمائندہ جنگ نے جب ساحل تھانے کے سینئر انویسٹی گیشن آفیسر، اسلام سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ مقدمہ کی فائل ابھی تک میرے پاس نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے میں کوئی جواب دینے سے قاصر ہوں۔انسانی حقوق کی تنظیمیں ، سول سوسائٹی ، سیاسی رہنما اور حکومت اس دل گداز واقعہ پر خاموش ہیں جب کہ پولیس نے ’’ اسباب قتل ‘‘ کا سراغ لگانے کی بجائے صرف شکیلہ کو سزا دلوانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین