• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ہم جہاں کھڑے ہیں،بلکہ اوندھے لیٹے ہوئے ہیں اس کی ذمہ داری فقط ہماری ہے ۔ اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ کا کھیل کودکی زبان میں جائزہ لیں تو ہم دنیا کی منفرد ٹیم ہوں گے جس نے اپنی سیاسی زندگی کی اننگ کا آغاز اپنے منجھے ہوئے کپتان اور وائس کپتان سے کیا، مگر افسوس کہ کیپٹن پہلے اوور میں ہی آوٹ اور وائس کیپٹن چوتھے اوور میں رن آوٹ ہو گئے۔ اس کے بعدفوجی وردی میں ملبوس چار کھلاڑیوں نے قوم کے ساتھ خوب گُلّی ڈنڈا کھیلا۔ موجودہ صورت حال شاہد آفریدی کے چھکے کا قصہّ ہے جو ایک یا دو بار لگ گیا اس کے بعد فقط اُسکا انتظار!معجزاتی طور پر آج بارھواں کھلاڑی ہیلمٹ اور پیڈپہنے اسلام آباد اسٹیڈیم کی طرف رواں دواں ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہم اس نہج پر کیوں اور کیسے پہنچے ؟ میں اس سلسلے میں گُلّی ڈنڈے کے کھلاڑیوں کو قطعاً بری الذمہ قرار نہیں دیتا لیکن یہ بات طے ہے کہ قومی و ملکی قیادت صرف اور صرف سیاسی قائدین ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور بد قسمتی سے اسی کا فقدان بدستور چلا آ رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہماری تاریخ کے65 اوورز میں سے 33 گُلّی ڈنڈا کھیلتے ہی گزرے مگرسیاست دانوں کی باہمی نا اتفاقی، ذاتی مفاد پرستی اور مجموعی غیر سنجیدگی نمایاں رہی جس کی وجہ سے آج بھی ٹرّکوں پر ایوب خان کی تصویر” تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد “کے ساتھ نظر آتی ہے اور آجکل مشرف کی واپسی کے را گ بمعہ طبلہ بھی سننے جاتے ہیں۔ موجودہ حالات بیان کرنے سے پہلے ایک قصہ یاد آیا۔ ہوا یوں کہ ایک ریسٹورنٹ میں کچھ خواتین بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں کہ اچانک Cockroach ایک خاتون کی گود میںآ ٹپکا تو اس خاتون نے چیخ وپکار کے ساتھ اُچھلنا کوُدنا شروع کر دیا۔ کاکروچ نے بھاگ کر یا شرارتاً دوسری خاتون کی گود میں پناہ لی۔ اس نے بھی وہی کام کیا جو پہلی نے کیا تھا اور پھریہی ردِعمل جاری رہا۔ اب کاکروچ نے چھلانگ لگائی اور نزدیک کھڑے Waiter کی چھاتی پر جا چپکاجس نے بڑی تحمل مزاجی سے اپنے بائیں ہاتھ پر طشتری کوسنبھالا اور دائیں ہاتھ سے کاکروچ کو پکڑ کر نیچے دے مارا۔ اس قصّے سے یہ بات عیاں ہے کہ خواتین نے ردِعمل کا اظہار کیا جبکہ Waiter نے اپنی صلاحیتوں کا سہارا لیتے ہوئے صحیحResponse دیا۔ بد قسمتی سے ہم بھی بے ہمتی،بے بسی اور بے حسی کی وجہ سے کبھی ڈینگی اور کبھی کاکروچ کے آگے لگ کر اُچھل کُود کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے اصل مقاصد سے کہیں دور نکل کر صحیح Response کی بجائے غلط ردِعمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہمارے سیاسی قائدین کا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی آمدپر کاکروچی ردِعمل ذراملا خط فرمائیے، ہم کسی بیرونی ملک کے باشندے سے مذاکرات نہیں کریں گے، ہم کوئی تحریراسکوائر نہیں بننے دیں گے، اسمبلیوں سے باہر کسی شخص کا حق نہیں کہ وہ ہمیں کوئی سبق دے،پارلیمنٹ کے باہر سے آ نے والی کسی تبدیلی کو نہیں مانتے، تبدیلی صرف الیکشن سے ہی آئیگی،سسٹم De-rail نہیں ہونے دیں گے، پولیٹکل پارٹیز ایکٹ ان کو قائد ہی نہیں مانتا، عبوری حکومت کے خلاف بات کرنا آئین کی بیسویں ترمیم کی خلاف ورزی، وغیرہ وغیرہ۔قارئین کرام۔ ڈاکٹر صاحب چاہے اپنی مرضی سے آئے یا بھیجے گئے،حقیقت یہ ہے کہ وہ خیر سے آگئے ہیں۔ کیا انہیں فقط گھس بٹیھیاکہنے اور ان کی کردار کشی کرنے سے کام چلے گا؟آپ کو یاد ہو گا کہ میمو کمیشن کے قضیے کے وقت بھی کم وپیش سب نے منصور اعجاز کی کردارکشی کرتے ہوئے اُنہیں جھوٹا قرار دیا تھا ۔ اُس وقت بھی ضرورت اس بات کی تھی کہ ماضی سے نکل کر اُن کے اُس وقت بولے ہوئے سچ کو اہمیت دی جاتی۔ یہی موجودہ حالات کا بھی ہے۔خداراڈاکٹر صاحب کی باتوں کو سنیے، سمجھئے اور پرکھیے۔ کیا وہ ملکی مفادات کے خلاف بات کر رہے ہیں ؟کیا وہ آئین اور قانون سے ہٹ کر کچھ کہہ رہے ہیں؟انداز اپنا اپنا ہو سکتا ہے لیکن منزل اگر ایک ہے تو پھر کیوں نہ ہم سب مل بیٹھ کر قومی اتفاق رائے سے بہتری کا راستہ ڈھونڈیں اور اس بد قسمت مخلوق کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں۔قارئین کرام۔ یہ بات بلاشبہ صحیح ہے کہ الیکشن قطعاًملتوی نہیں ہونے چاہئیں اور دونوں بھائی بھی برملا یہی کہہ رہے ہیں۔ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ سازش بھی وہیں پنپتی ہے جہاں کمزوری اور تفرقہ ہو جس میں ہم ماشااللہ خود کفیل ہیں۔ الیکشن گوجمہوریت کا حسن ہیں لیکن بنیادی اصلاحات کے بغیر مثبت تبدیلی کی توقع کرنا خام خیالی ہے۔ مسلسل محرمیوں کے نتیجے میں جو لاوا ملک کے طول و عرض میں بکھرچکا ہے وہ اب کسی بھی چلتے ہوئے قافلے میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس سفر کو اگر عوامی پذیرائی میسر آجائے تو پھر ہمارا کاکروچی ردِعمل بے کار ہو گا اور پھر آپ کس طرح تحریراسکوا ئربننے سے روکیں گے؟دانش کا یہ تقاضہ ہے کہ ہم ردِعمل کی بجائے بد گمانی سے پرہیز کرتے ہوئے مثبت عمل کا مظاہرہ کریں اور قطعِ نظر اسکے کہ کون اسمبلی کے اندر ہے اور کون باہر، کس کی شہریت سنگل ہے اور کس کی دُہری، کون اندر سے نکلا ہے اور کون باہر سے درآمد ہوا، ایک قومی کانفرنس بلائیں اور اتفاق رائے سے قومی مفادات کا ایجنڈا تشکیل دیں جس میں آئندہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان، نگراں حکومت کی تشکیل اور الیکشن کمیشن کو مضبوط کریں۔ کیا قائدایوان اورقائد حزبِ اختلاف کے علاوہ دوسرے قومی قائدین کو اس مشاورت میں شامل کرنے سے آئین کی بیسویں ترمیم کی روح تڑپ اُٹھے گی ؟ میرے نزدیک یہ کام قطعاً مشکل نہیں بشرطیکہ ہم مفاد پرستی، ہٹ دھرمی اور تنگ نظری سے باہر نکل کر سوچیں ! لیکن نا جانے کیوں مجھے یہاں غالب کا یہ مصرعہ یاد آیا”کوئی اُمید بر نہیں آتی“۔ کیا خوب ہوتا کہ غالب بندرروڈ پہ آنے کی بجائے اگر ہماری حکومتوں کا حصہ ہوتے تو پھر اپنا مشہور شعر شاید کچھ یوں کہتے۔
الیکشن میں کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
تازہ ترین