• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں سنگین جرائم اور واٹس اپ کی ترویج

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن
برطانیہ میں بسنےوالے شہری جانتے ہیں کہ یہاں آج کل کس قدر شور مچا ہوا ہے ایک طرف تو بریگزٹ کا شور اور دوسری طرف شہریوں کی زندگی اجیرن ہے کبھی کبھی نہیں ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ حادثے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ گلی اور محلے کی عام کہانی یہ ہے کہ پوش ایریاز میں چوری کی وارداتیں خوف میں مبتلا کردیتی ہیں جس علاقے میں زیادہ چوریاں ہو جائیں وہاں پولیس نے باقاعدہ وارننگ کے بڑے بڑے بورڈ اور نوٹس چسپاں کر رکھے ہیں اورعلاقے کے مکینوں کو باخبر کررکجھا ہے کہ ’’اپنی احتیاط آپ کے تحت چوکنے رہیے‘‘۔یہ کھمبے اور درختوں کے تنے پہلے کسی کی بلی یا کتے کی گمشدگی کے نوٹس چسپاں کرنے کے کام آتے تھے کہ فلاں نمبر کے گھر کی بلی اس رنگ کی گم ہوچکی ہے جسے نظر آئے اطلاع کیجئے یا پھر کسی کا کتا بھی مالک سے کیسے جان چھڑا کے گم ہو جاتا ہے خدا جانے مگر اب انہیں کھمبوں اور درختوں کے تنے پر جلی حروف میں چوری کے ٹوٹس نظر آئیں تو لوگوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اپنے کتے کے ساتھ واک کرتے ہوئے یا پھر اسی درخت کے نیچے بلی کتے کو رفع حاجت کراتے نظر پڑ ہی جاتی ہے کہ علاقے میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ ہماری ایک ہمسائی نے بتایا کہ میں اپنے کتے کو روک کر درخت کے تنے سے لگا ہوا چوری کے واردات والا نوٹس پڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک موٹر بائیک میرے قریب آکر رکی میں نے سمجھا ڈلیوری ہےکسی کی اور ایڈریس پوچھے گا ،قریب تو وہ بہت پیار سے آیا مزید قریب آکر کان میں کہنے لگا شور مت مچانا جو کچھ بھی ہے آرام سے نکال دو میں نے اسے ہمت کرکے بتانا چاہا کہ کچھ بھی نہیں مگر وہ جیکٹ کی جیب سے موبائل اور پرس نکال کرلے گیا۔ ہم نےپوچھا کہ آپ نے کتے کو سدھایا ہوا نہیں ہے کہ کوئی غیر پاس آئے تو وہ غرانے لگے یا پھر حملہ آوری کرے۔ اس پر وہ کہنے لگیں کہ اس کا موقع ہی نہ آیا کیونکہ میرے کتے کو معلوم ہے کہ مالکن بہت باتونی ہے ، محلے کے افراد سے سلام دعا کرتی رہتی ہے، کتا ہلکا سا بھونک کر خاموش ہو جاتا ہے وہ پھر مزید یہ بھی بتانے لگیں کہ کتے کو حملہ کرانے سے پہلے میں کھمبے پر نصب نوٹس جو پولیس کی طرف سے تھا وہ اس کی توجہ میں اشارے سے لانا چاہتی تھی مگر اس نے موقع ہی نہ دیا وہ تو چھینا جھپٹی کر یہ جا وہ جا۔ کیا فائدہ ایسے پولیس کے نوٹس کا کہ جس کے سائے تلے بھی میں لٹ گئی۔ پولیس کو اطلاع کی تو وہ صرف فون پر ہی ساری معلومات، دن، وقت اور حلیہ پوچھ کر بائے بائے کر گئے مطلب یہ کہ ایسی وارداتیں روز کا معمول ہیں۔ یہ سچ ہے کہ برطانیہ میں چھوٹی موٹی وارداتیں تو معمول کا کام ہیں پولیس کی اور پھر ایمبولینس کے ہارن روڈ پر سنائی بھی دیں تو گلی و سڑک پر واردات کرنے والوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ اب وارادت کرنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ پولیس کا بجٹ کم ہوچکا ہے وہ فون کرنے پر بھی معمولی واقعات پر دوڑی نہیں آئے گی اس لئے کہ بجٹ کم ہونے کی وجہ سے نفری بھی کم ہے۔ بازاروں میں، محلوں میں چوری چکاری عام سی بات سہی مگر وہاں بسنے والے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا گروپ بھی بن کر آئوٹنگ کیلئے جائے مگر ایک صرف ایک شخص آپ کو چاقو یا کوئی اور ہتھیار دکھا کر لوٹ لیتا ہے صرف ایک آدمی آج کے دور میں آپ کو خوفزدہ کردیتا ہے اور اس کا اثر آپ کی زندگی پر کافی دیر تک رہتا ہے۔ لندن کے بہت سے علاقوں میں پورے خاندان کی موجودگی میں منہ پر ماسک چڑھائے تین چار لوگ گھر میں لاک وغیرہ کھول کر یا توڑ کر داخل ہو جاتے ہیں اور ہراساں کرکے آپ سے سب کچھ نکلوا لیتے ہیں۔ بعض تو وین لے کر آتے ہیں اور گھر کا قیمتی سامان اٹھاکر لے جاتے ہیں یہ واقعات بھی عام ہو رہے ہیں۔ان چھوٹے موٹے واقعات سے قطع نظر برطانیہ میں دیگر سنگین جرائم آئے روز ہو رہے ہیں ان میں چاقو گھونپنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ کوئی بھی کہیں سے آکر دشمنی میں آسانی سے دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ ابھی ایک معصوم بچے کو مانچسٹر میں چاقوئوں سے قتل کردیا گیا یعنی معصوم لوگوں کو بلاوجہ بھی قتل کیا جارہا ہے۔ اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ تین لاکھ تیرہ ہزار بچے جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہیں۔ گینگ اور پھر گروہوں میں شامل ان بچوں کی عمریں 10برس سے 17برس کی ہیں۔ صرف27ہزار بچوں کی شناخت انگلینڈ میں جرائم پیشہ گروہوں سے ہے۔ یہ گینگ یا گروہ کسی بھی بڑے جرم کیلئے بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے والدین پریشان ہیں کہ بچے اسکول کے دوران یا پھر اسکول کے بعد گھر نہیں آتے گینگ کے لوگوں کے پاس چلے جاتے ہیں والدین کو نظر نہ آنے والے بچے کسی گروہ کے گرد منڈلاتے نظر آتے ہیں یا پھر پولیس کے پاس نظر آتے ہیں۔ یہی بچے چوری، لڑائی جھگڑے میں نہ صرف استعمال ہوتے ہیں بلکہ قتل و غارت گری میں بھی ان کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ انہیں کے ذریعے قتل وغیرہ بھی آسانی سے ہوسکتے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں خوف و دہشت کی فضا بنتی جارہی ہے اور پولیس ان سب پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اب تو گلی محلوں میں لوگ خود چوکنا ہو رہے ہیں اسی سلسلے میں علاقائی لوگ پولیس کا انتظار کئے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت علاقے میں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے واٹس ایپ گروپ بنائے جارہے ہیں جس میں ہر گھر کے دو افراد کو شامل کیا جارہا ہے جو اپنی آنکھوں دیکھا حال واٹس ایپ گروپ میں شیئر کیا کریں گے اب تو تقریباً ہر علاقے و محلے میں واٹس ایپ گروپ کی ترویج ہو رہی ہے۔ اس علاقائی واٹس گروپ میں پولیس کو شامل کیا گیا ہے۔ تیزی سے رواج پاتے اس واٹس ایپ گروپ کا یہ فائدہ ہے بھی ہے کہ یہاں ہلکی پھلکی گپ شپ بھی رہتی ہے لوگ ایک دوسرے کو جاننے بھی لگے ہیں کہ کون کہاں رہتا ہے گھر کا نمبر کیا ہے ورنہ علاقے کے چرچ میں ہی ملاقات ہوتی تھی وہ بھی بوڑھے لوگوں کی جبکہ اب سب ہی بڑے چھوٹے سنگین جرائم کی وجہ سے اکٹھے ہو رہے ہیں۔
تازہ ترین