• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:کونسلر حنیف راجہ…گلاسگو
کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کی مساجد میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا ہے وہ کوئی بہت زیادہ غیر متوقع بھی نہیں۔ 9/11کے بعد سے اسلامو فوبیا کا جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کے منطقی نتائج تو اس صورت میں برآمد ہونے تھے۔ نفرت کی اس فضا کو پیدا کرنے میں پوری مغربی دنیا میں انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان اور سب سے بڑھ کر میڈیا کا کردار ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ معاشرے سے ایک دشمن کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ ان ہی اثرات کے تحت یورپ کے بعض ممالک نے حجاب اور نقاب پر پابندیاں عائد کیں۔ مساجد کے منیاروں کی مخالفت کی، ڈونلڈ ٹرمپ نے، سات مسلم ممالک کے افراد پر امریکہ داخلے کی پابندیاں لگائیں، تہذیبوں کے تصادم کی تھیوری کہ اسلام اور مغربی تہذیب ایک دوسرے کی ضد ہیں کا پرچار کیا گیا اور مقابلے میں مسلمانوں کے نقطہ نظر کو میڈیا میں جائز اور مناسب کوریج نہ دی گئی۔ چند ایسے انتہا پسندوں کو مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر پیش کیا جاتا رہا جن کی باتوں سے99 فیصد مسلمان خود نفرت کرتے تھے۔ ایک بات مزید واضح ہوکر سامنے آئی کہ اگر دہشت گردی کے کسی واقعہ میں حملہ آور مسلمان ہوتا تو اسے فوراً مذہب کا رنگ دے کر اسلامی دہشت گردی کا نام دے دیا جاتا ہےجب کہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق ہونے پر اسے صرف انتہا پسند کہا جاتا ہےاور ساتھ ہی خبر بھی سنائی جاتی ہے کہ اس شخص کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ کشمیر، فلسطین اور روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر میڈیا کے بڑے حصے کو کوئی دلچسپی نہ ہوتی، اسلاموفوبیا کا شکار افراد اور نسل پرستوں کو اب یہ بات پوری طرح سمجھ لینی چاہئے کہ دنیا میں مسلمان یا دیگر اقوام جہاں پر بھی آباد ہیں، اب وہی ان کا وطن ہے، ان کا جینا مرنا سبھی کچھ یہاں پر ہی ہے، ان ہی ممالک کی ترقی ان کا مطمع نظر ہے جس کی کامیابی سے ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ یہ ملٹی کلچرل ازم معاشرے کی کمزوری نہیں بلکہ اصل قوت ہے۔ مغربی معاشرے میں بسنے والے افراد کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ کون کہاں سے آیا ہے، بلکہ یہ کہ ہم ایک یونٹ ہیں اور ہماری منزل مشترک ہے۔ دنیا میں ہزاروں سال سے تبادلہ آبادی ہوتا آیا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے شخص کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ملک کی مائیگریشن پالیسی سے سخت ناخوش تھا، کیونکہ وہاں پر مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ اس قاتل کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ خود بھی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے نہیں بلکہ تارکین وطن ہیں۔ ان کے آبائو اجداد کو یہاں آباد ہوئے ابھی دو سو سال بھی نہیں ہوئے جب کہ یہاں کے اصل باشندے ABORIGINESہیں، اسی طرح براعظم امریکہ کے اصل باشندے وہ ہیں جن کو ہم ریڈ انڈین کے نام سے پکارتے ہیں۔ مغربی دنیا میں بے شمار ایسے سیاستدان اور افراد ہیں جو صحت مندانہ سوچ کے مالک ہیں اور انسانی قدروں پر یقین رکھتے ہیں، ان سب نے پوری قوت کے ساتھ نیوزی لینڈ کے سانحہ کی بھرپور مذمت کی ہے، مگر بدقسمتی سے ابھی ایسے افراد موجود ہیں جو اس قتل عام کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کا دفاع کررہے ہیں اور ان میں آسٹریلیا کے ایک سینئر فریزر ایننگFRASER ANNINGبھی ہیں، وہ اس حملے کا ذمہ دار وہاں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قرار دے رہے ہیں، ایسے افراد جو نفرت کا پرچار کرتے ہیں، ہمیں ان کو اپنے اتحاد سے شکست دینا ہوگی، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس کو بھی مزید مستعدی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ایسے افراد ہر ملک و قوم میں موجود ہوتے ہیں، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو مزید متحرک کرنا ہوگا اور ایسے افراد کے خلاف سخت کریک ڈائون کرنا پڑے گا، عدالتوں کو بھی چاہئے کہ وہ انہیں مثالی سزائیں دیں، حکومتوں کو بھی چاہئے کہ وہ نسلی اقلیتوں اور تمام مذاہب کے افراد کو ان کا جائز مقام اور عزت دیں۔ ان کو تمام اداروں میں نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اپنا نقطہ نظر بہتر طور پر سامنے لاسکیں۔
تازہ ترین