• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دومسجدوں میں گزشتہ روز نماز جمعہ کے موقع پر انتہا پسند مسیحی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سفید فام حملہ آوروں کے ہاتھوں پچاس پُرامن مسلمان نمازیوں کا منظم دہشت گردی کا نشانہ بننا ایک طرف اس حقیقت کا کھلا اظہار ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہیں یہ واقعہ پوری عالمی برادری کیلئے اس حوالے سے خطرے کا الارم ہے کہ اگر منافرت اور تشدد کے رجحانات کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو کرئہ ارض کو جہنم بننے سے بچایا نہ جاسکے گا۔ سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ اس قتل عام کی وڈیو سوشل میڈیا پر براہ راست نشر بھی کی جاتی رہی۔ حملہ آور کے ہتھیاروں پر مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیز الفاظ لکھے پائے گئے ہیں وہ اس قسم کے افراد کی مریضانہ ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے حملے کو بجا طور پر کھلی دہشت گردی اور ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں ایسی انتہاپسندی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔مرنے والے کہیں سے بھی آئے ہوں وہ ہمارے ہیں، مار نے والے ہمارے نہیں، نہ ہی ان کے لیے یہاں کوئی جگہ ہے۔نیوزی لینڈ پولیس کے سربراہ مائیک بش کے مطابق واردات کے بعد چارافراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے برینٹن ٹارنٹ کو ہفتے کی صبح عدالت میں پیش کیا گیا اور اس پر فرد جرم بھی عائد کردی گئی۔ مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانے کی یہ تیزرفتار کارروائی نیوزی لینڈ حکومت کی سنجیدگی کا ثبوت ہے لہٰذا اس معاملے کے تمام حقائق کے جلد منظر عام پر آنے، تمام مجرموں کے کیفر کردار تک پہنچنے اور آئندہ ایسے کسی بھی واقعے کی روک تھام یقینی بنائے جانے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔امریکہ، برطانیہ، ترکی، سعودی عرب کے سربراہوں،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، مسیحی دنیا کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس اورجامعہ ازہر سمیت متعدد ملکوں اور عالمی اداروں نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے نیوزی لینڈ میں پیش آنے والی اس بہیمانہ واردات پر شدید رنج و غم اور نیوزی لینڈ کے مسلمانوں اور حکومت سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے بقول اسلام کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیاں جاری رہیں اور دنیا خاموشی سے دیکھتی رہی نتیجہ یہ کہ آج مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی سوچ مغرب کو کینسر کی طرح کھارہی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے ان حملوں کونائن الیون واقعے کے بعد دنیا بھر میں پھیلنے والے اسلامو فوبیا کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔بلاشبہ یہ امر واقعہ ہے کہ نائن الیون حملوں کے بعد مغربی پالیسی سازوں، حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے اپنے اقدامات کو اس واقعے کے ذمہ داروں تک محدود رکھنے کے بجائے اس کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ اسلام بجائے خود دہشت گردی کا علم بردار ہے اور مسلمان بحیثیت مجموعی دہشت گرد ہیں جس سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے جبکہ دوسری طرف اسلام کا براہ راست مطالعہ پچھلے کئی عشروں سے جدید مغربی دنیا کے مردوں اور خواتین کے قابلِ لحاظ تعداد میں قبولِ اسلام کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔اس کی ایک تازہ ترین مثال گزشتہ ماہ ہالینڈ کے مشہور اسلام مخالف سیاستداں جورم وان کلیورن کا قبولِ اسلام ہے۔ گیرٹ وائلڈر جیسے اسلام مخالف سیاستداں کی جماعت میں اس کے دست راست کی حیثیت رکھنے والے اس سیاستداںنے اسلام کیخلاف کتاب لکھنے کیلئے قرآن کا مطالعہ شروع کیا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو جان کر اس نتیجے پرپہنچا کہ اسلام انسانیت کو جوڑنے کا علم بردار ہے، تفریق و تقسیم، نفرت اور تعصب کا نہیں۔ کلیورن سے پہلے اسی پارٹی کے ایک اور رہنما ارناؤڈ وین ڈورن بھی اسلام کا براہ راست مطالعہ کرکے مسلمان ہوچکے ہیں۔ اسلام کی طرح عیسائیت بھی دنیا میں امن کی علم بردار ہے۔ لہٰذا دنیا کی سیاسی و مذہبی قیادتوں،اہل علم و دانش اور ذرائع ابلاغ کو باہمی الزام تراشیوں کے بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا راستہ اختیار کرکے دنیا کو نفرت اور تشدد کی آگ میں بھسم ہونے سے بچانے کو یقینی بنانا چاہئے۔

تازہ ترین