• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اتوار اپنی اولادوں کے ساتھ گزارنے کی تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔بہت سے احباب بتارہے ہیں کہ ان کے ہاں پہلے سے یہ روایت ہے بیٹے بیٹیاں الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں۔ لیکن ہفتے میں ایک روز سب اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ کچھ نے اس کے لیے جمعے کی شام رکھی ہے۔ کچھ نے ہفتے کی۔ کچھ اتوار کے دوپہر کے کھانے پر یکجا ہوتے ہیں۔ میں تو اپنے ہم سخنوں سے عرض کروں گاکہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان بیٹھکوں کے بارے میں چند جملے ایس ایم ایس کردیا کریں۔ میں اپنی تحریر ان جملوں سے سجائوں گا۔

گزشتہ دنوں ایسا سانحہ ہوا جس کے اندوہ سے میں ابھی تک نہیں نکلا ہوں۔ کراچی بلکہ ملک کے ایک ممتاز بلڈر کے ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو طیش میں آکر گولی کا نشانہ بنایا۔ درمیان میں بھابھی آئی وہ بھی ہدف بن گئی۔ پھر اس بھائی نے اپنے آپ کو بھی گولی مار لی۔ پلک جھپکنے میں ایک معزز خاندان میں تین جیتی جاگتی ہستیاں میت بن گئیں۔ تین کہانیاں ادھوری رہ گئیں۔

سانحہ اتنا دل دہلادینے والا تھا کہ اس کی تفصیلات۔ ہلاکتوں کے اسباب جاننے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی۔ تنازعات پہلے سے چل رہے ہوں گے۔ انہیں طے کرنے کی طرف مکمل توجہ نہیں دی گئی ہوگی۔ جن صاحب کے گھر میں یہ المیہ برپا ہوا انہیں میں نے ہمیشہ خوش و خرم۔ ہنستے مسکراتے دیکھا ہے۔ یہ ایک خاندان کا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ صرف امارت اور املاک کے سبب ہوتا ہے خاندانوں میں رنجشیں چل رہی ہوتی ہیں۔ بڑے اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔میٹنگوں میں مصروف رہتے ہیں۔

ہم ایسا سسٹم نہیں بناسکے ہیں جن میں ایسے جھگڑے شروع میں ہی نمٹا دئیے جائیں۔ پہلے ایسی سعی خاندانوں والوں کو کرنی چاہئے۔ پھر کونسلر وغیرہ کو بیچ میں پڑنا چاہئے۔ مسجد کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ غور کیجئے۔ اس خاندان پر اس المیے کے کیا اثرات ہوں گے۔ بچوں بچیوں۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسی نواسیوں کے دل میں کتنا ہول بیٹھ گیا ہوگا۔

آپ میرا دُکھ سمجھ رہے ہیں نا۔ براہِ کرم آپ بھی اپنے گھروں میں جھانکیں۔ کسی بہن بھائی کے دل میں ایسا تردد ہے تو اسے دور کریں کسی نہ کسی کو اپنی انا کو دباکر آگے بڑھنا چاہئے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کا حسین تحفہ ہے۔ اسے یوں طیش میں آکر ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ گھر میں ماحول۔ ملک میں سسٹم بنانا اور چلانا آگے بڑھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ہمارے ہاں تو نوبت یہ آچکی ہے کہ ’’نان سسٹم‘‘ ہی سسٹم بن چکا ہے۔ مافیائوں کرپٹ سیاستدانوں ۔ بد عنوان بیورو کریٹوں۔ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرنے والے اداروں نے ایسا مضبوط نان سسٹم بنایا ہے کہ عام آدمی اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کررہا ہے۔

عام طور پر تازہ دم لیڈروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس ’’نان سسٹم‘‘ کو بتدریج ختم کرکے ایک باقاعدہ سسٹم رائج کریں گے۔ لیکن وہ بھی اس نان سسٹم کے یرغمال بن کر رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ دس روز سے میں سوچ رہا ہوں کہ آخر کیا امر ہے جو عمران خان کو بڑا لیڈر بننے سے روک دیتا ہے۔ تاریخ تو ہر روز ایسے مواقع دیتی ہے۔ کیا صرف بھارت کی دشمنی ہماری توانائیوں اور صلاحیتوں کو جگاتی ہے۔

یہ جو پنجاب حکومت اور اسمبلی نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اچانک اضافہ کرلیا ہے اس سے ان منتخب ارکان کے کھوکھلے پن کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ملک کی 98فیصد اکثریت کے آلام اور مشکلات کا ان 2فیصد کو احساس ہی نہیں ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کے ذہنی رُجحانات کیا یہی ہیں۔ جنوبی پنجاب سے ایک تہی دست کو وزیر اعلیٰ بنانے کی حکمت ناکام ہوگئی۔ کیا یہ سوچ عمران خان کے علم میں نہیں تھی۔ پارٹی کے اندر تو یہ باتیں ہوتی ہوں گی۔ سوشل میڈیا پر بجا طور پر تنقید کی جارہی ہے کہ عوامی ضرورت کی اہم اشیا پر تو کوئی رعایت نہیں دی جارہی ہے۔ حج جیسے مقدس سفر کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سب سے بڑے صوبے کے اسمبلی ارکان۔ وزیروں۔ وزیرا علیٰ کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔

تحریک انصاف کا اگر کوئی نصب العین ہے تو اس بل کے محرّک تائیدکنندگان۔ وزیر اعلیٰ۔ اسپیکر کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے۔ آپ کو بھی چاہئے کہ عمران خان کو ای میل کریں ۔ خط لکھیں۔ اس حرکت سے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف بھی نان سسٹم کو ہی سسٹم رکھنا چاہتی ہے۔

پاکستان کے غریب اور مظلوم عوام پہلے جن پارٹیوں کی باریاں بھگت رہے ہیں وہ بھی نان سسٹم کو آگے بڑھاتی رہی ہیں۔ اس لیے ملک کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوسکے۔ پانی کی قلت اب بڑا مسئلہ بن رہی ہے۔ اسٹیٹ کی طرف سے شہریوں کو روزگار کی ضمانت نہیں ہے۔ مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر۔ واحد پاکستانی ہیں جو پُر امید ہیں۔ خلیل احمد نینی تال والا کی کتاب ’’سیاسی دائو پیچ‘‘ کی افتتاحی تقریب میں اپنے صدارتی خطبے میں انہوں نے بہت سی بشارتیں دیں۔ مثلاً نیب کے اقدامات سے کئی سو ارب روپے پاکستانی خزانے میں واپس آئے ہیں۔ گندم میں ہم خود کفیل ہیں۔ برآمد کررہے ہیں۔ چاول بھی باہر بھیج رہے ہیں۔ چینی کی قلّت پر کبھی حکومتیں چلی جاتی تھیں اب چینی بھی ایکسپورٹ ہورہی ہے۔

جنرل صاحب کے بیان کردہ حقائق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں ایسا ماحول نہیں بنایا جارہا جس سے اکثریت اپنے آپ کو محفوظ خیال کرے۔ بہت اچھا ہے کہ ملک میں کرکٹ بحال ہورہی ہے۔ ہمارے کراچی میں چوراہوں پر کھلاڑیوں کے پورٹریٹ لہرارہے ہیں۔ پوری شارع فیصل۔ کارساز روڈ اسٹیڈیم تک روشنیوں میں نہا رہی ہے۔ جگہ جگہ بڑی اسکرینیں لگی ہیں۔ نوجوان کرکٹ دیکھنے میں مصروف ہیں ۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو کہ بہت سی سڑکیںبند ہوگئی ہیں۔ ٹریفک اتنا بھاری ہوگیا ہے کہ اپنی اپنی منزلوں تک پہنچنا مشکل ہورہا ہے۔ کراچی کی انتظامیہ ۔

صوبائی حکومت مقامی حکومت میں بٹی ہوئی ہے۔ ٹریفک پولیس سڑکیں بند کرنے کی ماہر ہے۔ مگر متبادل راستے دینے کی مہارت نہیں رکھتی۔

میں پھر سسٹم کی طرف آتا ہوں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں زندگی آسان اور رواں دواں اس لیے لگتی ہے کہ وہاں برسوں کی تحقیق کے بعد سسٹم تشکیل دئیے گئے ہیں۔ تحقیق ہر روز جاری رہتی ہے۔ مقصد انسان کی زندگی کی مشکلات کو دور کرنا ہے ۔ ہم نے انگریز کے دئیے ہوئے سسٹم کو بھی رفتہ رفتہ نان سسٹم میں بدل دیا ہے۔ با اثر منتخب لوگ سسٹم کی پابندی کی بجائے سسٹم کو اپنا پابند بنالیتے ہیں۔ آئین میں ترامیم کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔ 18ویں ترمیم سے صوبوں کو خود مختاری مل گئی ہے۔ فنڈز بھی زیادہ میسر آئے ہیں۔ لیکن ان کی تربیت نہیں ہے کہ فنڈز کیسے خرچ کرنے ہیں کوئی تربیت حاصل کرنا نہیں چاہتا۔ ملک چلانے کی دعویدار سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ اپنے کارکنوں اور عہدیداروں کو بیرون ملک تربیت کے لیے بھیجیں۔ اچھے منیجرز پیدا کریں ۔ غلاموں کی فوج تیار نہ کریں۔

تازہ ترین