• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لکھنا تو چاہتا تھا عورتوں کے مارچ پہ جاری رقیق حملوں کی پدر شاہانہ منافقت پر، یا پھر کرتارپور راہداری پہ امن و محبت کے راستے کھلنے کی اُمید پر، مگر نیوزی لینڈ جیسے انسان دوست ملک میں دو مساجد پر دہشت گرد حملے اور انسانیت کُشی نے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ فسطائی، سادیتی، نسلی، مذہبی اور نفرت پر مبنی اندھے اور خوفناک جذبات اور نظریات کیا کیا خون آشام مناظر بپا کر سکتے ہیں، تاریخ اُن سے بھری پڑی ہے۔ یہی گزشتہ جمعہ کو کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ہوا۔ آسٹریلوی دہشت گرد نے اللہ کے حضور سربسجود لوگوں کو ابدی نیند سُلا دیا۔ قریب ہی بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی جان بچا کر بھاگ نکلے، لیکن وہ خاتون جو زخمی حالت میں مدد کو پکار رہی تھی کو موت کے سوداگر نے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔اور دہشت گردوں کی طرح، برینٹ ٹیرنٹ کا بھی ایک نفرت انگیز منشور تھا اور اُس کے بھی درندہ صفت ہیرو تھے اور کچھ تاریخی حوالے۔ پیٹرسن جس نے دو مہاجر بچوں کو سویڈن میں قتل کیا، بیسونیٹ جس نے کینیڈا میں چھ نمازیوں کو قتل کیا، البانیہ کا سکندر برگ جس نے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف جنگ کی، بریگیڈن جس نے ترک مغویوں کو قتل کیا۔ چارلس مارٹل جس نے معرکہ بلاط الشہدا میں مسلمانوں کو شکست دی۔ ویانا جس کا خلافتِ عثمانیہ نے آخری بار محاصرہ کیا۔ یہ تھے اُس کے ہیروز اور تاریخی میلانات جو اُس کی بندوق پہ تحریر تھے۔

دہشت گرد نسل پرست فسطائی اور دہشت گرد نظریات کے ہاتھوں اندھا ہو کر تارکینِ وطن اور رنگدار مسلمانوں سے انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ پیداوار ہے مغرب میں پھر سے اُبھرنے والی فسطائی اور نسل پرست لہر کا جسے اسلامی بخار یا فوبیا کہا جاتا ہے۔ وہ امریکہ میں اُبھری سفید چمڑی والوں کی نسل پرستانہ قوم پرستی سے متاثر تھا اور ٹرمپ کا گرویدہ۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والی سفید فام دہشت گردی پہ جواب آں غزل کی چنداں ضرورت نہیں کہ دہشت گردی کا کوئی دین، کوئی قومیت اور کوئی نسل نہیں۔ یہ عفریت کسی کو بھی دبوچ سکتا ہے اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے اور کسی بھی نسلی گروہ کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ البتہ، یہ تازیانہ ضرور ہے اُن مہذب قوموں کے لیے جو سیاہ زمانوں کی وحشت ناکیوں (inquisition) سے تائب ہونے کی دعویدار ہیں اور ان میں کچھ شکی القلب فقط مسلمانوں یا پھر سیاہ فام و رنگدار لوگوں کو اُس کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔ فلسفی کارل مارکس نے کیا خوب کہا تھا کہ گزری نسلوں کا کیا دھرا موجودہ نسلوں کے سروں پر آسیب کی طرح سوار رہتا ہے۔ اِن نفرتوں، بدلوں اور غصے سے مُکتی میں ہی انسانیت کی فلاح ہے۔

معاملہ تہذیبوں کے مابین تصادم کا ہے، نہ نسلوں، قوموں اور مذہبوں کے مابین ٹکرائو کا۔ یہ تو استحصالی مفادات کی وہ جنگ ہے جس میں ہر طرح کے مقدس صحیفوں، نسلی و قومیتی امتیازات اور تاریخ کی نامرادیوں اور کامیابیوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سب انسان دشمنیاں زر، زن اور زمین کے اندھے حصول اور استعمال کے لیے ایندھن کا کام دیتی ہیں اور استحصال زدہ عوام الناس اپنے دُکھ بھول کر اِسی آتشِ نمرود میں کود جاتے ہیں۔

خون تو ممبئی اور پلوامہ میں بھی بہا تھا اور خون کشمیریوں کا بھی ناحق بہہ رہا ہے۔ خون افغانوں کا بھی بہا اور خون آرمی پبلک اسکول کے نونہالوں کا بھی بہایا گیا۔ خون کسی کا بھی بہا غلط تھا اور خون جس نے بھی بہایا ظلم کیا۔ کوئی قاتل، کوئی دہشت گرد، کوئی نسل پرست اور کوئی مذہبی جنونی قابلِ ستائش نہیں۔ تاریخ تب مسخ ہوتی ہے جب ایک خونین دہشت گرد ہمارا محبوب ہو اور دوسرا انسانیت دشمن قابلِ گردن زدنی۔ تاریخ کا یہی المیہ ہے، جب تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی بجائے، اسے دشمن کو سبق سکھانے کے لیے پڑھا جائے۔ جب ناروے میں دہشتگرد اینڈز بریوک نے بچوں کا قتلِ عام کیا تو تمام ناروے باہر نکل آیا اور نادم ہوا اور پھر سے قومی تحلیلِ نفسی کی مہم شروع کی گئی کہ تحت الشعور میں وہ کونسے چھپے عفریت ہیں جن کی تطہیر ضروری ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے جس طرح دہشت گردی کی مذمت کی ہے، مظلوم شہدا اور اُن کے لواحقین کو نیوزی لینڈ کے اپنے قرار دیتے ہوئے قاتل کو ننگِ انسانیت قرار دیا وہ اُن سب حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی پیشوائوں کے لیے قابلِ پیروی ہے۔

دوسرے کے دُکھ کو اپنا ماننا اور اپنے کے ظلم کو ناقابلِ معافی قرار دینا ہی انسانی سچائی اور فکری پختگی ہے۔ لیکن دہشت گردوں اور ہر طرح کے مذہبی و نسلی تفرقہ بازوں کے لیے کوئی جھوٹ اور کوئی رعایت نہیں، اِسی بنیاد پر انسانیت پنپ اور سُرخرو ہو سکتی ہے۔

دہشت گردی کی بلا اب ہر طرف بجلی بن کر گر رہی ہے۔ کوئی اس سے بچا نہیں۔ ہم نے پاکستان جیسے روادار اور ملنسار معاشرے میں اسے اپنے بیچوں بیچ اُٹھتے اور ہر سُو پھیلتے دیکھا ہے۔ اِس کی توصیف اور نظریاتی جواز پر بہت سوں کو سر دُھنتے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ اِس آسیب کا شکار ہوتے ریاست کو بھی دیکھا ہے۔ اور بہت دیر تک ہم نے اِسے گوارا کیا کہ یہ آگ تو دوسروں کے لیے ہے، ہمیں یہ کیوں بھسم کرے گی۔ آخر یہ ہر آنگن تک پہنچ گئی، تب بھی ہم پہلو بچاتے رہے۔ پھر اپنے پرائے کی خودغرضانہ ریت میں سر چھپانے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن جو دہشت گردوں کی فصلیں تیار کی گئیں، اُنہیں یا تو تلف کرنے کے علاوہ چارہ نہ رہا، یا پھر کہیں اعتکاف میں بٹھانے کا کوئی قابلِ عمل نسخہ تلاش کیا جانے لگا۔ اب گلے پڑا ڈھول کون بجائے۔ پھر بھی اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی 1267 کمیٹی ہو یا پھر فنانشل ٹاسک فورس کی چھان پھٹک، ہم کٹہرے میں ہیں اور ابھی بھی غلط قدموں پہ کھڑے ہیں۔ بار بار ہم کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم کرتے ہیں اور وہ راہِ عدم روانہ ہونے کو تیار نہیں۔ اِن میں سے کچھ کو، جیسے تحریکِ طالبان پاکستان کو، ہم نے بزور بازو نکال باہر کیا، کچھ ریاست کو چیلنج کرنے کی پاداش میں انجام کو پہنچے۔ لیکن اُن کا کیا جائے جو لاڈ سے پالے گئے تھے ۔ یہ لوگ سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہیں اور اُن کے امرا کسی نہ کسی صورت فرضِ امارت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔ ضربِ عضب اور ردّ الفساد کے باوجود دہشت گردی کا فتنہ موجود ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد بار بار کے عزم کے باوجود تشنہ ہے۔ بہتر ہے کہ ان نظریاتی جتھوں کو متبادل نظریہ اور روزگار فراہم کر دیا جائے۔ اور ان کے رہنمائوں کو منفعت بخش گوشہ نشینی اور روحانی اعتکاف پہ راغب کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور دھماکہ ہو اور برصغیر جنگ کی آگ میں لپٹ جائے، پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ریاستی ادارے مل بیٹھ کر ایک جامع حکمتِ عملی پہ اتفاق کریں۔ لیکن اس کا کیا کریں کہ وزیراعظم عمران خان مُودی سے ملاقات کے لیے تیار ہیں (جو کہ ایک سنجیدہ بات ہے) لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں۔ وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ مُودی یا پھر ٹرمپ بننے کی کیوں کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کی بھلائی میں اُن کی بھلائی ہے اور حزبِ اختلاف کی بھی۔ دہشت کا کوئی دین ہے، نہ کوئی مقدس نام، پھر کیوں اس زحمت سے چھٹکارا نہ پائیں اور تہمت سے خلاصی۔

تازہ ترین