• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2007میں ہمارے ایک کاروباری دوست جو صومالی لینڈ کے باشندے تھے اور دبئی میں بھی کاروبار کرتے تھے، نے ہمیں صومالی لینڈ آنے کی دعوت دی دراصل وہ صومالی لینڈ اور پاکستان کے درمیان اپنا کاروبار بڑھانا چاہتے تھے اور پاکستان میں صومالی لینڈ کیلئے اعزازی قونصل جنرل کی تلاش تھی۔ اس وجہ سے میں نے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ سفرمیں شامل کیا۔ ان دنوں صومالی لینڈکیلئے دبئی سے بہت چھوٹے جہاز براستہ ادیس ابابا،جبوتی سے ہو کہ صومالی لینڈ کے دار الحکومت ہرگیسیا تقریباََ5گھنٹوں میں پہنچتا تھا اگر چہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا ۔مگر دو اسٹاپس کی وجہ سے اتنا وقت لگتا تھا ۔ آج سے 27سال قبل صومالیہ 2حصوں میں10بارہ سال کی آپس کی جنگوں کی وجہ سے صومالیہ اور صومالی لینڈ میں بٹ گیا تھا۔ اس وقت صومالی لینڈکے حصہ میں 90فیصد پہاڑی علاقہ ریگستان اور ایک سمندر باربرا پورٹ آیاتھا۔ جنگلوں، کھیتی باڑی، اونٹ بھیڑ بکریاں ،گائے وغیرہ پرمعیشت کا کل دارومدار تھا۔ غربت زیادہ تھی، جنگوں سے آپس کے قبائل میں بہت مرد مارے گئے تھے لاتعدادبچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوچکی تھیں ۔دونوں طرف کے قبائلی سرداروں نے از خود اس مسئلہ کو حل کر کے امن قائم کیا۔ صومالیہ تو خود کفیل تھا مگر صومالی لینڈ کو کچھ مسلمان ملکوں سے اور یو این ای سی ایف سے امداد ملتی تھی۔ غربت کے باوجود صومالی لینڈ میں امن و امان تھا اگر چہ صومالیہ نے آج تک صومالی لینڈ کو یو این او کا ممبر نہیں بننے دیا تاکہ وہ غربت کا شکار رہے ۔خیر ہم باپ بیٹے 12 سال قبل دبئی سے رکتے رکاتے صومالی لینڈ کے سب سے بڑے شہرہرگیسیاپہنچے۔ ائر پورٹ پر ہمارے دوست جن کا نام محمد عثمان عابدی تھا لینے آئے ان دنوں پاکستان اور صومالی لینڈ کے درمیان ویزا ائر پورٹ پر ملتا تھا اس کیلئے ہر پاکستانی کو2سو امریکی ڈالر کیش کروانالازم تھا ۔ ایک ڈالرکے عوض 5000ہزار صومالی لینڈ کی کرنسی لینی پڑئی تھی۔ خیر ہم ہرگیسیا پہنچے بہت چھوٹا شہر چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ، معمولی ائر پورٹ ،چند چھوٹی گاڑیوں اور پرانی بسوں سے سفر کیا جاتا تھا، صرف ایک 2 اسٹار ہوٹل ائر پورٹ پر تھے اور2 تین گیسٹ ہائوس تھے۔ جس میں سے ایک ہمارے میزبان کا بھی تھا اس میں ہمیں ٹھہرا یاگیا۔ صومالی لینڈ میںزیادہ تر اونٹ اور بھیڑکا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے سبزیاں غریب غرباء کھاتے ہیں۔ پورے شہر میں کچے پکے مکانات تھے ہر قسم کی منشیات پر پابندی تھی البتہ ایک خاص قسم کی گھاس نما ڈنڈیاں جس کو کاڈ(KADH)کہتے ہیں اس کو کھانے کی اجازت تھی جو صرف خواتین فروخت کرسکتی تھیں۔ دوسرے دن اس چھوٹے شہر کی مین مارکیٹ گئے وہاں یہ یہی کرنسی ،کاڈ اور دیگر سبزیاں ،کپڑے ،جوتے وغیرہ ٹھیلوں پر مرد اور خواتین دونوں فروخت کررہے تھے ۔مقامی کرنسی اور ڈالروں میں لین دین ہورہاتھا ،مسجدوں کی تعداد بھی زیادہ تھی بازار میں بھیڑ بھاڑ بھی تھی ۔ہم نے دیکھا کہ مسجدوں سے آذان کی آوازیں بلند ہوئیں تو تمام ٹھیلے والے اور چھوٹے چھوٹے کیبن والوں نے دروازے بند کر کے ٹھیلوں پر کپڑا ڈال کر مسجدوں کا رخ کیا بہت تعجب ہو انہ تالا ڈالا نہ ٹھیلے پر حفاظتی اقدام کیا۔ ان دنوںہرگیسیا میں حکومت کی جانب سے بجلی،گیس کاکوئی بندوبست نہیں تھا ٹھیکے پر جنریٹر سے بجلی خریدی جاتی تھی۔ کھانے پینے کا سامان زیادہ تر دبئی سے سمندری جہازوں سے لایا جاتا تھا۔ دوسرے دن ہمارے میزبان نے صومالی وزراء سے ملوایاجوبہت سادہ لباس صرف ایک لنگی اور قمیض پہنے ہوئے تھے ، ہرگیسیاکا گورنربھی خود معمولی گاڑی میں ہم سے ملنے آیا تھا ۔رات صومالی لینڈ کے صدر نے کھانے کی دعوت دی ، 2000گز پر معمولی سا بنا مکان جس میں نیچے ان کا صدارتی دفتر اور اوپر رہائش تھی ،کچے پکے فرش کی تعمیر اور اس صدر کی سادگی دیکھ کر دل بہت خوش ہو ا ۔کھانے کی میز پر صرف ایک ڈش بھیڑ کا گوشت ،چاول،سلاد،فروٹ اور کھیر نما میٹھا تھا۔ اللہ اللہ اتنی سادگی، صدر نے کہا ہم آپ کی خاطر تواضع اس سے زیادہ نہیں کرسکتے، 10بجے رات کرائے کی بجلی چلی جائے گی لہٰذا جلدی کھانا تناول فرمائیں۔ دوسرے دن صدر نے اپنے فارن منسٹر سے مشورہ کر کے ہما رے صاحبزادے کو صومالی لینڈ کا اعزازی قونصل جنرل بنادیا۔ مگر چونکہ یو این او نے ابھی تک اس ملک کو تسلیم نہیں کیا تو سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوسکے ۔

تیسرے دن ہمارے میزبان ایک بہت بڑے گھنے جنگل میں لے گئے جو میلوںپھیلا ہواتھا وہاںجابجا بوریاں رکھی ہوئی تھیں ہم نے پوچھا یہ کس کی بوریاں ہیں اس نے بتایاکہ اس جنگل میں بھیڑ بکریاں گائے اونٹ پالے جاتے ہیں ۔رات کو ان کا دودھ نکال کر راستہ میں رکھ دیاجاتا ہے ۔جو شہر کے دکان دار لے جاتے ہیں اور دوسرے دن اس کے عوض جو چیزیں کھانے پینے کی درکار ہوتی ہیں ان دودھ کے برتنوں کے ساتھ چٹ لگا دی جاتی ہے وہ مہیا ہوجاتی ہیں ۔ہر ہفتے لین دین کا حساب کرلیا جاتا ہے۔ ہم نے پوچھا یہ لاوارثوں کی طرح پڑی ہوئی بوریاں اور دودھ کے برتن چوری نہیں ہوتے؟ انہی کی زبانی آج تک ایسا نہیں ہوا برس ہا برس سے یہ لین دین چل رہا ہے۔پچھلے ماہ 12 سال کے بعد دوبارہ ہم باپ بیٹے اپنے میزبان کی دعوت پر گئے تو یقین نہیںآیا ان12 سالوں میں صومالی لینڈ کی کایا پلٹ چکی تھی۔ ان کی بنجر زمینوں میں تیل اور پہاڑوں میں سونا ،تانبہ ہر قسم کے ہیرے جواہرات کوئلہ معدنیات کی بدولت۔ صومالی لینڈ میں آج بھی اسی طرح مرد و خواتین اپنی دکانوں ٹھیلوں مارکیٹوں میں کرنسی اور اب سونے کے زیورات ہیرے وغیرہ اسی طرح خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ کوئی دہشت گرد داعش شباب تنظیمیں نام کوبھی نہیں ہیں ۔اسی طرح آذان کی آواز پر دکانیں ٹھیلے بند ہوتے ہیں ۔عالی شان عمارتیں، 5اسٹار ہوٹلز لمبی لمبی لینڈ کروزر کی بھرمار قیمتی مکانات صدر اور وزراء کے لئے لائن سے بنے لمبے لمبے باغات اور بنگلے، خوش اخلاقی بھی عوام اور حکومتی لوگوں میں اسی طرح دیکھی۔سپر مارکیٹس اور بڑے بڑے مالز لوگوں کے پاس دولت کی فراوانی اس اسلامی ریاست کا الگ نمونہ پیش کررہی تھی۔ وہ امن امان کی فضا وہی وزراء ہم کو سادگی سے ملے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سے سفارتی تعلقات قائم ہوںاور اب یو این او بھی صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے والی ہے۔ پڑوسی ممالک اور افریقن ممالک بشمول یو اے ای، ترکی،سعودیہ بھی اس کو تسلیم کرچکی ہیں اور صومالی لینڈ میں ان کے سفارتخانے بھی کھل چکے ہیں۔ پاکستان کو بھی چاہئے کہ صومالی لینڈ کو تسلیم کرکے تجارتی راستے کھولے دونوں ملکوں کا اس میں فائدہ ہے۔ بھارتی صنعت کار ان سے تجارت شروع کرچکے ہیں دنیا بھر سے صنعتکار صومالی لینڈ سے تانبہ، پیتل اور معدنیات خرید رہے ہیں پاکستانی صنعتکاروں کو چاہئے کہ وہ بھی صومالی لینڈ کا دورہ کریں اور اس نئی منڈی سے فائدہ اٹھائیں۔

تازہ ترین