• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1965ء کی پاک بھارت جنگ کو روکنے اور امن قائم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی مداخلت سے سابق یوویت اور موجودہ روس کے شہر تاشقند میں پاکستان اور بھارت نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، جسے ’’معاہدہ تاشقند‘‘ یا ’’تاشقند ڈکلیئریشن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس معاہدے پر 10 جنوری 1966ء کو دستخط ہوئے تھے۔ اس موقع پر اردو کے ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی کی نظم نشر کی گئی تھی۔ یہ نظم پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی تھی۔ جنگ کے خلاف اس سے بہتر شاعری شاید اب تک نہیں ہوسکی ہے ۔ اس کا ایک ایک مصرعہ زبان زد عام ہوا۔ یہ شاعری جنگوں کے خلاف اور امن کی حمایت میں تاریخ انسانی کے تجربات کا فلسفیانہ اور مدلل بیان ہے۔

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر…

جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف

امن پرامن زندگی کے لئے

امن پسند قوتیں اس نظم کے ہر شعر اور ہر مصرعہ کو حوالے کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ 26 فروری 2019ء کو بھارتی فضائیہ کی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد دونوں ملکوں کے مابین جو کشیدگی پیدا ہوئی، اس نے جنگ کی تباہ کاریوں کے خوف سے لرزہ طاری کردیا۔ اس مرتبہ یہ احساس شدت سے پیدا ہوا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور امن ہی ہر مسئلے کا واحد حل ہے۔

جب معاہدہ تاشقند ہوا تھا، اس وقت حالات آج سے قطعی طور پر مختلف تھے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اگرچہ اپریل 1965ء تک ہونے والی پاک بھارت جنگ محدود نوعیت کی تھی لیکن عالمی طاقتوں کو خدشہ تھا کہ اگر یہ ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کرتی ہے تو اس میں لازمی طور پر عالمی طاقتیں کود پڑیں گی اور پھر ایک عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت نے بھی اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے معاہدے پر رضا مندی ظاہر کی ہوگی۔ حالانکہ 6 ماہ کی اس محدود جنگ نے دونوں ملکوں میں جنگی جنون پیدا کردیا تھا اور دونوں ملکوں میں امن معاہدے کی مخالفت ہوئی۔ بھارت میں اس معاہدے کی مخالفت اس لیے ہوئی کہ معاہدے میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں پھر مسلح بغاوت نہیں ہوگی اور پاکستان میں اس معاہدے کی مخالفت اس تاثر کی وجہ سے ہوئی کہ پاکستان یہ جنگ جیت سکتا تھا اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے آزاد کراسکتا تھا۔ امن معاہدے سے یہ موقع ضائع ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس معاہدے کی سب سے زیادہ مخالفت کی اور یہ معاہدہ ایوب خان کے زوال کا سبب بنا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک اس وقت جوہری طاقت نہیں تھے اور دونوں میں غربت کی شرح آج کے مقابلے میں کم تھی اور میڈیا بھی بے قابو نہیں تھا۔

آج صورت حال قطعی طور پر مختلف ہے۔ عالمی جنگوں کی تباہ کاریاں دیکھنے اور جنگوں سے برباد ہونے والی نسلیں آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ سرد جنگ کا زمانہ ختم ہوگیا ہے، جس میں جنگوں کو ہوا دینے والی قوتیں گرم جنگوں کے بغیر اپنے ہتھیار بیچ رہی تھیں۔ آج چین، بھارت، پاکستان اور ایران سمیت ایشیا کے دیگر ممالک مغرب کی معاشی بالادستی کو چیلنج کررہے ہیں اور دنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر اگرچہ امریکا اور مغربی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ غیر معمولی طاقتوں کے ابھار سے مغرب خوفزدہ ہے اور وہ یہ کوشش کرسکتا ہے کہ یہ صدی مشرق کی صدی نہ بن سکے۔ روس کے سوا کوئی بھی مغربی طاقت مصالحت کی مخلصانہ کوشش کیوں کرے گی؟ یہ سوچ کے لرزہ طاری ہوگیا۔ ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ 1965ء کے برعکس آج پاکستان اور بھارت جوہری طاقتیں ہیں، جنہیں طویل عرصے کی سرحدی کشیدگی اور محدود جنگوں نے ’’فرسٹریشن‘‘ کا شکار بنادیا ہے۔ 1965ء میں بھارت میں کانگریس کی حکومت تھی اور کانگریس کے وزیراعظم لعل بہادر شاستری خود جنگوں کے مخالف تھے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد ان کا تاشقند میں ہی پراسرار طور پر انتقال ہوگیا تھا اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ اس معاہدے کی وجہ سے انہیں زہر دے کر قتل کیا گیا ہے لیکن اس مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتہا پسندانہ سوچ کا حامل ہے اور وہ جنگی جنون کی بنیاد پر سیاست کرتا ہے۔ اگرچہ اس مرتبہ دونوں ملکوں میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے امن کا پرچار کیا اور پاکستانی حکومت خصوصاً وزیراعظم عمران خان نے بھی امن کی بات کی اور جنگ کی۔ تباہ کاریوں سے خبردار کیا لیکن اس مرتبہ دونوں ملکوں کے میڈیا نے (انتہائی معذرت کے ساتھ) وہ جنگی جنون پیدا کیا، جو 1965ء میں دونوں ملکوں کا سرکاری میڈیا بھی نہیں پیدا کرسکا تھا۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں پرائیویٹ میڈیا نہیں تھا۔ اس زمانے میں دونوں ملکوں کی سول سوسائٹی امن کے لیے جو کوششیں کرسکتی تھی، وہ آج کی سول سوسائٹی نہیں کرسکتی۔ بدلتی ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں دونوں ملکوں کے یہ داخلی عوامل محدود جنگ یا چپقلش کی چنگاری کو بھڑکاکر دو جوہری طاقتوں کو اس مرحلے تک پہنچاسکتے تھے، جس کا تصور محال ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ جنگ شروع تو کی جاسکتی ہے اور اسے ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔

دونوں ملکوں میں نہ صرف بہت زیادہ غربت ہے بلکہ آج کی جدید معیشت ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ حساس ہے اور جنگ سے بہت زیادہ متاثر ہونے والی ہے۔ کشیدگی کے دوران ملکوں میں فضائی آپریشن بند ہونے اور ہنگامی صورت حال سے معیشت کو جو نقصان ہوا، اس کا پورا تخمینہ دونوں ملکوں میں نہیں لگایا جاسکتا۔ صرف غریب اور محنت کش طبقات کو محسوس ہوا کہ جنگ کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں۔ وہ کس طرح آگ اور خون بخشتی ہیں اور بھوک اور احتجاج دیتی ہیں۔ جنگ ابھی بھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی دونوں ملکوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی حالات بھی جنگ کو ہوا دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لوگوں کا جنون بھی حالات کا رخ خطرناک سمت کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اس صورت حال میں جنگ کو ٹالنے کا صرف ایک ہی حل ہے، وہ یہ ہے کہ امن کی بات کی جائے۔ امن کی حمایت کی جائے اور یہ دلیل دی جائے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ واحد حل امن ہے۔

امن کو جن سے تقویت پہنچے

ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

تازہ ترین