• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر اعتماد سازی کے اقدامات کے بارے میں بات چیت کے نتائج طرفین کی کم توقعات کے مطابق تھے اور 27-28دسمبر کو ماہرین کی سطح کے مذاکرات کے بعد جاری کئے گئے نرم بیان سے یہ بات واضح ہے۔ ’پیس اینڈ سیکورٹی‘ کے ایجنڈے کے تحت یہ مذاکرات دہلی میں منعقد ہوئے اور یہ معاملہ طرفین کے مابین جامع مذاکرات کا آٹھواں ایشو ہے۔ دو سال قبل مذاکرات کی بحالی کے بعد سے طرفین کے مابین ’دشوار‘ معاملات پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی مگر تجارت اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان انفرادی روابط جیسے ’نرم‘ ایشوز پر بات چیت کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔ تمام اہم تنازعات جمود کی حالت میں ہیں اور حالیہ پیش آئے مسائل کا بھی کوئی حل نہیں نکالا جا سکا ہے مثلاً بھارت دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے بن الاقوامی فنڈنگ کی مخالفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں۔کیا اقتصادی اور تذویراتی معاملات کو فی الواقع جدا کیا جا سکتا ہے؟ کیا اقتصادی روابط میں مثبت اضافے کو ’دشوار‘ معاملات پر کسی پیشرفت کے بغیر بر قرار رکھا جا سکتا ہے؟ اگر متنازع معاملات کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو کیا اس سے تعلقات کے معمول پر لوٹنے کا عمل متاثر نہیں ہو گا؟ روایتی اور جوہری ہتھیاروں پر بات چیت کا چھٹا اور ساتواں دور سیکورٹی ایریا میں ان معاملات پر پیشرفت میں حائل دشواریوں کا عکاس ہے جن کا مقصد باہمی تنازعات سے بچنا ہے۔ یہ بات چیت دسمبر2011ء میں ہوئی بات چیت سے مشابہ تھی مگر سابقہ مذاکرات میں ایک مناسب نتیجہ نکلا تھا یعنی مزید اگلے پانچ برسوں کے لئے ’جوہری ہتھیاروں سے وابستہ حادثات کے خطرے کو کم کرنے‘ کے لئے2007ء کے معاہدے میں توسیع پر رضامندی مگر حالیہ مذاکرات کچھ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کے مذاکرات میں بحث و تمحیص کے لئے تجاویز کی کمی تھی۔ کچھ تجاویز ایک عشرے پرانی تھیں اس سے اس بات کی اہمیت اجاگر ہوئی کہ طرفین کے مابین اختلافی ترجیحات پر موجود دشوار ترین خلا کو پاٹنا کتنا ضروری ہے۔ جوہری معاملات پر بھارتی حکام1999ء کے ’لاہور پروسیس‘ کے اپنی دانست میں ادھورے پہلوؤں پر اڑے ہیں مگر اسلام آباد روایتی اور جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کے اقدامات کے بارے میں ایک نئے جامع ایجنڈے کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے۔ دہلی مذاکرات میں طرفین نے اپنی اپنی اختلافی ترجیحات کو دہرایا۔ مضبوط نتائج کی جانب پیشرفت کے بجائے زیادہ زور بات چیت پر دیا گیا مگر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح طرفین کو ایک دوسرے کے تذویراتی خیالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ دہلی مذاکرات میں روایتی فوجی ہتھیاروں پر اعتماد سازی کے اقدامات کے بارے میں وسیع تجاویز پیش کی گئیں بشمول یہ کہ غیر ارادی طور پر سرحد پار کرنے والوں کو فوری طور پر واپس کر دیا جائے،1961ء میں طے شدہ سرحدی زمینی قواعد کا نفاذ، لائن آف کنٹرول پر نئی چوکیوں کی تعمیر پر پابندی، بحری واقعات سے بچاؤ جس میں نیوی کے جہاز بھی شامل ہیں اور فوجی مشقوں کے بارے میں پیشگی نوٹس کی فراہمی۔ غالباً اس تناظر میں سب سے اہم اقدام وہ تھا جس پر کم و بیش ایک عرصے سے بہت اچھی طرح کام کیا گیا ہے یعنی2003ء میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر۔ 2008ء کے بعد اس حوالے سے باہمی شکایات کے تناظر میں مذاکرات میں اتفاق رائے سامنے آیا کہ مستقبل میں ان خلاف ورزیوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے حاجی پور سیکٹر میں بھارتی فوجی دستوں کی طرف سے اس خلاف ورزی کے بعد اس ایشو کو مزید اہمیت حاصل ہوئی۔ سمندری واقعات سے بچاؤ کی بابت کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جہاں متعدد نوکیلے پہلوؤں کو حل کرنے کی ضرورت برقرار ہے۔ بھارت کی اس تجویز پر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا کہ فوجی سربراہان کے مابین سہ ماہی فلیگ میٹنگ کے پہلے سے طے شدہ سیکٹروں میں ایک اور سیکٹر کا اضافہ کیا جائے۔ لائن آف کنٹرول پر نئی چوکیوں کی عدم تعمیر کی بابت بھی کوئی متفقہ رائے سامنے نہیں آ سکی کہ سی بی ایم کے اس پہلو کو نمٹانے کے لئے سلامتی ڈھانچوں کو کس طرح متعین کیا جائے اور اس معاملے میں حدود کے تعین کو مستقبل کے مذاکرات کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ واضح ہو کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول سے500میٹر فاصلے کی تجویز پیش کی تھی۔ سرحد پار کرنے کے معاملے پر بھارت بین الاقوامی سرحد سے متعلق معاہدے پر زور دیتا رہا جب کہ پاکستان کی ترجیح یہ تھی کہ اسے لائن آف کنٹرول تک محدود رکھا جائے۔ بات چیت میں پیشرفت کے لئے پاکستان نے تجویز پیش کی کہ جب کہ1961ء کے سرحدی زمینی قواعد موجود ہیں اور نافذ کئے جا رہے ہیں تو انہیں ایک معاہدے کی سطح تک بڑھایا جا سکتا ہے اور جس دوران یہ عمل جاری ہے لائن آف کنٹرول کو غیر ارادی طور پر پار کرنے کے معاملے پر کوئی معاہدے طے کیا جا سکتا ہے۔ اس تجویز پر آئندہ بات چیت میں غور کیا جائے گا۔ فوجی مشقوں کے پیشگی نوٹس کی بابت کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ پاکستان موجودہ سی بی ایم کو خاص طور پر حالیہ تبدیلیوں کے تناظر میں فوجی نقل و حرکت پر پابندی کے لئے نامناسب قرار دیتا آیا ہے۔ بھارت کے نئے اشتعال انگیز فوجی نظریئے کی وجہ سے طرفین کے مابین تناؤ میں کمی کے لئے پاکستانی حکام چاہتے ہیں کہ اس سی بی ایم کا دائرہ کار چھوٹی فوجی مشقوں اور سرحد کے نزدیک فوجی دستے لگانے تک بڑھایا جائے مگر بھارتی حکام اس پر راضی نہیں ہو سکے۔ بھارتی حکام نے دونوں ممالک کے دفاعی اداروں اور تھنک ٹینکوں کے درمیان وفود کے تبادلوں اور سیمیناروں کی تجویز کو دوبارہ پیش کیا مگر ماضی میں اسلام آباد کو اس پر تحفظات رہے ہیں۔ اسی طرح جوہری مذاکرات پر بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ پاکستان کی طرف سے1999ء میں پہلی بار پیش کردہ ’اسٹراٹیجک ریس ٹرینٹ رجیم‘ کی تجویز کے جواب میں بھارتی حکام نے اپنے معمول کے جواب کو دہراتے ہوئے روایتی اور جوہری فوجی معاملات کے درمیان کسی بھی تعلق کو مسترد کر دیا۔ پاکستانی حکام نے اس باہمی مربوط تصور کے تین ’نا استثنیٰ پذیر‘ پہلوؤں پر آئندہ مذاکرات میں غور و فکر کا مطالبہ کیا یعنی روایتی فوجی توازن، جوہری کنٹرول اور تنازعات کا حل۔ مگر بھارتی حکام نے اس کا معمول کے مطابق جواب دیتے ہوئے چین کا نام لئے بغیر کہا کہ بھارتی سیکورٹی کا دائرہ کار اب پاکستان سے آگے نکل چکا ہے۔ جب پاکستان نے اس طرف توجہ مبذول کرائی کہ بھارت کے70فی صد سے زائد فوجی اثاثے تاحال پاکستان کے خلاف نصب ہیں تو بھارتی حکام نے اس کا شدت کے ساتھ انکار کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے2011ء میں پیش کردہ جوہری اعتماد سازی کے تین اقدامات… جوہری حفاظت کے بارے میں معلومات کا تبادلہ، جوہری توانائی کا پُرامن استعمال اور جوہری ہنگامی حالات کے بارے میں جلد از جلد آگاہی کی فراہمی… کا بھی بھارت نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ اس پاکستانی دلیل کے جواب میں کہ ’جوہری ہتھیاروں سے وابستہ حادثات کے خطرے کو کم کرنے‘ کے چھ سال پرانے معاہدے کو ایک سویلین معاہدے کی ضرورت ہے بھارتی حکام نےIAEAکے تحت بین الاقوامی طریق کار کو ضرورت سے زائد کافی قرار دیا۔ پاکستان کی اینٹی بلاسٹک میزائلوں کی عدم تنصیب کے لئے ایک بار پھر پیش کردہ تجویز کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بھارتی حکام نےABMنظام اور تذویراتی استحکام کے مابین کسی بھی ربط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ1999ء کے ’لاہور ڈیکلیئریشن‘ کے تحت جوہری نظریئے اور سلامتی کے تصورات پر بات چیت کی جائے۔ وہ اسMOUکی ایک مزید شق یعنی کثیر سطحی تخفیف اسلحہ کے مذاکرات کے تناظر میں دوطرفہ مشاورت کے نفاذ پر بھی زیادہ پُرجوش تھے جس پر1999ء میں دستخط کئے گئے تھے مگر پاکستانی حکام نے اسے ایسے مذاکرات میں معمول کی کارروائی ٹھہراتے ہوئے غیر ضروری قرار دیا۔ بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت جوہری معاملات پر بات چیت بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ بھارتی حکام نےFMCTپر مذاکرات کے جلد آغاز کی حمایت کی مگر پاکستانی حکام نے پھر دہرایا کہ موجودہ کیفیت میں یہ معاہدہ امتیازی ہے جس سے خطے میں عدم توازن ایک جگہ ٹھہر جائے گا جو پاکستان کے مستقل تذویراتی مفاد کے خلاف ہو گا کیوں کہ گزشتہ عشرے میں عالمی طاقتوں کی سپورٹ کے باعث بھارت نے اپنی تذویراتی اور روایتی فوجی صلاحیت میں زبردست اضافہ کر لیا ہے جب کہ پاکستان کے لئے یہ صورتحال برعکس رہی ہے۔ جب تک خطے میں بڑھتی ہوئی تفاوتوں کو دور اور تذویراتی توازن کو بحال نہ کیا جائے پاکستانFMCTپر اپنے موقف کو تبدیل نہیں کرے گا۔ اس طرح اس بات کا اظہار ہوا کہ باہمی تذویراتی تعلقات میں استحکام لانے اور ان کے خدوخال کا تعین کرنے میں مشترکہ مفاد رکھنے کے با وجود پاکستان اور بھارت دونوں فوجی اعتماد سازی کے اقدامات کے بارے میں قطعی مختلف ترجیحات رکھتے ہیں مگر پھر بھی اس بات کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے کہ دونوں سلامتی کے ماحول میں بہتری لانے کے لئے اعتماد سازی کے بامعنی اقدامات کے حصول کی کوششیں جاری رکھیں۔ مستقبل کے مذاکرات کا ایک اور اہم پہلو اقدامات کے کسی فریم ورک کی تشکیل ہے جس سے دونوں ممالک کو مستقبل میں کسی اچانک ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے تناؤ سے بچنے سمیت ایسے کسی بحران کا حل نکالنے میں مدد ملے۔ اس کوشش کے دوران اس بات کو واضح کر دینا چاہئے کہ خطے کے تناؤ آمیز تذویراتی ماحول اور اہم ترین معاملات پر سست پیشرفت کے تناظر میں تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں ’دشوار‘ سیکورٹی ایشوز پر سے توجہ کم نہیں کی جا سکتی۔ امن عمل کی کامیابی کا دارومدار دونوں ممالک کی اس صلاحیت پر ہو گا کہ وہ اپنے شدید اختلافی معاملات سے نظریں چرانے کے بجائے انہیں کس طرح لیاقت کے ساتھ حل کرتے ہیں۔
تازہ ترین