• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جون 2018ء میں پاکستان کو منی لانڈرنگ کے انسداد کیلئے قائم کردہ بین الاقوامی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ اس سے جہاں پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا، وہیں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ اور مالی ساکھ کو بھی بڑا دھچکا لگا۔ جولائی 2018ء میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی نئی حکومت نے پاکستان کی معاشی بہتری کیلئے بھرپور کوششیں کیں۔ اِنہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکتوبر 2018ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ساتھ ہونے والے مذکرات میں پاکستان کو مشتبہ مالی لین دین کا ریکارڈ جمع کرنے کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔ اب چھ ماہ بعد وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ایف اے ٹی ایف کا ایشیا پیسفک گروپ 25مارچ کو پاکستان آئے گا جو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا بلیک لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کرے گا۔ ایشیا پیسفک گروپ کے نو رکنی وفد کی سربراہی ایگزیکٹو سیکرٹری گارڈن ہک کریں گے اور یہ مذاکرات 26سے 28مارچ تک اسلام آباد میں ہوں گے۔ ایشیا پیسفک گروپ کا وفد وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، ایس ای سی پی، ایف بی آر، ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت دیگر متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کریگا۔ حکومتِ پاکستان نے اِس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرتے ہوئے جہاں کالعدم تنظیموں کی گوشمالی کی، وہیں یہ فیصلہ بھی کیا کہ ٹیلی کام سیکٹر سے رقوم کی منتقلی کا ریکارڈ اسٹیٹ بینک مرتب کرے گا جبکہ پاکستان پوسٹ کی ترسیلات کا ریکارڈ بھی اسٹیٹ بینک کو فراہم کیا جائے گا۔ اِس کے ساتھ ساتھ انعامی بانڈز کا ریکارڈ رکھنے کیلئے بھی قوانین کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ ان قوانین سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ انعامی بانڈ کس کی ملکیت ہیں اور کیسے خریدے گئے۔ امید کی جانی چاہئے کہ پاکستانی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ایشیا پیسفک گروپ کو مطمئن واپس بھیجیں گے اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے میں کامیاب رہیں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین