• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی زبان اور مادری زبان کی اہمیت سے انکار نہیں۔ لیکن حیثیت تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ تمام معاشی ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ذریعہ تعلیم ابھی بھی وہاںکی مادری زبان ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مسائل اور حالات کے مطابق لکھی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں اورجب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں " تھیوری اور پریکٹیکل" میں کوئی فرق نظرنہیں آتا۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہمیں ہر حال میں " نمبرون" ملک کی نقل کرنی ہے بغیر عقل استعمال کئے۔ چونکہ امریکہ میں تعلیم انگریزی میں اور حتی کہ برطانیہ میں بھی انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے اور دونوں " بڑے" ملکوں میں دفتری یعنی سرکاری زبان انگریزی ہے۔ "تو ہمیں اگرترقی کرنی ہے" تو صرف اور صرف "انگریزی" پڑھ کرممکن ہے ۔ مضامین میں عبور اور اہلیت ہو نہ ہو انگریزی پہ مکمل عبور ہونا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اور معاشرہ اردو میڈیم اور انگریزی میں تقسیم ہوگیا ہے۔ یوں تعلیم انفرادی اور اجتماعی فروغ کا ذریعہ بننے کہ بجائے طبقاتی تقسیم کاسبب بن چکی ہے۔ وہ لوگ جنہیں اپنے حاصل کئے ہوئے علم پر دسترس ہے لیکن انگریزی بولنے میں جھجکتے ہیں ۔ باوجود صلاحیت کے آگے بڑھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ جبکہ روانی سے انگریزی بولنے والے بھلے سے اہلیت نہ رکھتے ہوں ان کو مواقع پہلے فراہم کئے جاتے ہیں۔ ان کے لیے معاشرہ اور اداروں میں Acceptanceقبولیت زیاد ہ ہوتی ہے۔ ایسے میں سیاستدان انگریزی میں تقریر کریں یا اردو میں اس سے کیا فرق پرتا ہے؟ قومی اسمبلی یا سینٹ میں انگریزی استعمال پر کوئی پابندی تو نہیں ہے۔ جب ملک بیرونی جارحیت کے خطرے میں ہے تو ایسے میں خاندانی نام رکھنے اور نہ رکھنے، انگریزی بولنے اور اردو نہ بولنے پہ بحث اوراعتراض کیا معنی رکھتاہے؟بحث کرنی ہے تو اس بات پر کیجئے کہ اب تعلیم سب کے لیے ہو وہ بھی ان کی مادری زبان میں۔ خاص طور پر سائنس، حساب، انجیئنرنگ اورہرطرح کی تکنیکی تعلیم۔ کیونکہ جب تک بآسانی سمجھ کر سائنس کو نہیں پڑھایا اورپڑھاجائے گاتو اس کو سمجھنا اور اس سے نئی ایجادات یا جدیدیت کرناممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح انجینئرنگ کی تعلیم جب اپنی زبان اور اپنے ملکی حالات، قابلیت اوراستطاعت رکھ کر دی جائے گی تو عوام فہم بھی ہوگی، عوامی ضرورتوں کے تحت ہوگی۔ یوں تعلیم مکمل کرکے بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اور دوسرے مضامین کی کتابیں بھی ملکی حالات وواقعات کو دیکھ کر لکھی جائیں ۔ کیا انگریزی ادب صرف لندن تک محدود ہے کہ لندن برج، day the dam Broke،The count of Monte cristo اور Prisoner of Zenda کے علاوہ کوئی اور بھی ناول انگریزی میں قابل تعلیم ہوتا۔جب تعلیم ہی اجنبی دی جائے گی تو بچوں میں کیسے ملک کے لیے مانوسیت کا احساس ہوگا ۔پھر تھیوری اور پریکٹیکل کا فرق بھی واضح ہوگا۔

تازہ ترین