• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ …مریم فیصل
شمع روشن کرنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ جو شمعیں بے دردی سے بجھا دی گئیں وہ دوبارہ نہیں جلیںگی ۔صرف50 افراد نہیں کئی خاندان ہیں جو اپنے پیاروں کے غم میں آنسو بہاتے یہی سوچ رہے ہیں کہ ان کا کیا قصو ر تھا ؟؟۔ایک شخص دور بیٹھا دو برس تک اس بہیمانہ قتل کی منصوبہ بندی کرتا رہا اور اس کو انجام تک پہنچا بھی دیا کوئی اسے نہیں روک سکا ۔بہت تکلیف کا وقت ہے، دکھ ہے ،غصہ ہے ۔لیکن جانے والوں کو کون واپس لا سکتا ہے ۔ موت برحق ہے لیکن ایسی موت کون چاہتا ہے؟۔ اتنی نفرت اتنا غصہ کہ بس سب کچھ ختم کر دو ۔یہ دہشت گردی ہے نفرت ہےاور وہ جذبات ہیں جو مسلمانوں کے خلاف پنپ رہے ہیں ۔ نائن الیون، لندن حملے اور اس سے بھی پہلے سے جب مسلمان یورپ پر حکمرانی کرتے تھے ۔ دشمنی کی پرانی تاریخ ہے ۔ جن کوامریکہ میں ٹیون ٹاور میں جہاز ٹکرانے اور برطانیہ میں انڈر گرانڈ پر حملے جیسے واقعات نے بڑھاوا دیا ہے ۔ اینٹی ٹیرارزم کے قوانین بننے کے بعد بھی ان کو روکا نہیں جا سکا ہے اور بہت مشکل بھی ہے کیونکہ اتنی بڑی دنیا میں کوئی کہاں کس کونے میں بیٹھا دہشت گردی پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اس کے لئے کیا ہر گھر میں کیمرے فٹ کر دئیے جائے اور لمحہ بہ لمحہ لوگوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے ؟۔ یہ کتنی غیر حقیقی بات ہے ایسا تو کہانیوں اور فلموں میں بھی نہیں ہو سکا تو اصل زندگی میں کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کس کس کے دماغ میں جھانکے اور ا ور کیسے دماغوں سے یہ خناس نکالے کہ ہم مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور یہ تو ہم لکھنے والے بھی لکھ لکھ کر تھک گئے کہ گھروں سے شروعات کرنا ہوگی نوجوانوں کو برین واش ہونے سے بچانا ہوگا انتہا پسندی کو روکنا ہوگا ۔ لیکن نہ ایسے واقعات میں کمی آرہی ہے نہ ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت ختم ہو رہی ہے ۔ بلکہ اس ایک اور واقعے نے ہمیں خبردار کر دیا ہے کہ ایسا کہیں بھی دوبارہ سے ہوسکتا ہے ۔پہلے یہ واقعات ان ممالک میں ہوئے جہاں مسلمانوں کی تعداد مقامی کمیونٹی کے برابر نہیں لیکن اتنی ضرور ہے کہ ہر شعبے میں نظر آتے ہیں جیسے یہاں برطانیہ کے مسلمان جو سیاست میں، طب میں، چھوٹے بڑے ہر کاروبار میں چھائے ہوئے ہیںاسی طرح امریکہ کے مسلمان ۔لیکن نیوزی لینڈ جیسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے اور جہاں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہاں دہشت گردی کا واقعہ بھی ہوسکتا ہے، اب ان ممالک کو ٹارگٹ کیا جائے گا ایسا ہو بھی سکتا ہے ۔ ہمیں خبردارو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہ سلسلہ نہ رکنا والا ہے حکومتیں بے بس ہو چکی ہیں دہشت گردی کے قوانین بالکل نافذ کئے جاچکے ہیں لیکن وہ بھی کچھ نہیں کر رہے البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ اگر ذمے دار پکڑے جائے تو سزا دی جاتی ہے لیکن یہ گناہ ایسا نہیں کہ صرف سزا دی اور بات ختم۔۔ یہ ہر شروع ہوتے دن کے ساتھ بڑھتے اس خطرے کی آواز ہے جو کہیں بھی ظہور ہو سکتا ہے۔ کبھی نسل پرستی کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام یا پھر رنگ کی برتری کے نام پر ۔
تازہ ترین