• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:ولفگنگ منچا

شاید یورپی یونین کیلئے اور خاص طور پر جرمنی کے لئے سب سے بڑا جغرافیائی مسئلہ چین کے ساتھ مستقبل کے تعلقات ہیں۔ گزشتہ ہفتے جرمن کے بزنس میگزین نے رپورٹ دی کہ چانسلر اینگلا مرکل کے سینئر حکام نے انسداد جاسوسی معاہدے کی کوشش کیلئے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح کے معاہدوں کی عموما کاغذٰ پر تحریر اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔ اس دورے کا سیاق و سباق چین کی ٹیلی کمیونیکشن سامان ساز کمپنی ہووائے کی جانب سے جرمنی میں ففتھ جنریشن موبائل لائسنس کیلئے درخواست تھی(جس کا فیصلہ رواں ماہ کسی تاریخ کو ہونا ہے)۔ جاسوسی نہ کرنے کا معاہدہ جرمنی کو یہ ظاہر کرنے کی اجازت دے گا کہ اسے چین سے سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات کافی دلچسپ ہیں۔ چین کے بارے میں جرمنی تذبذب کا شکار ہے۔ اسے چین کی ہواوئے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ جرمنی کے موبائل فون آپریٹرز ہواوئے کی فائیو جی درخواست پر خاص طور پر کافی آرزومند ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے نیٹ ورکس میں چینی کمپنی کے ہارڈویئر استعمال کررہے ہیں۔

تاہم جرمنی بھی اس کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے والی چینی کمپنیوں کے بارے میں فکرمند ہے۔ گزشتہ دسمبر نئے قانون نے ایکویٹی اسٹیک کی حد کمی کردی جو خودکار طریقے سے تحقیقات کو متحرک کرتا ہے۔ وزیر اقتصادیات پیٹر الٹمیئر نے چینی مہارت سے ایئر کرافٹ، فنانس،ٹیلی کمیونیکشن،ٹرین،انرجی اور روبوٹکس سمیت تمام شعبوں کی حفاظت کیلئے حال ہی میں نئی صنعتی حکمت عملی پیش کی ۔

پرتگال کے سابق یورپی وزیر نے اپنی حالیہ کتاب میں نوٹ کیا کہ چین اور جرمنی کے تعلقات بدرجہ غایت بدل گئے ہیں۔ جرمنی جو پہلے کبھی چین کو اپنی مشینری کی برآمدات کے لئے ایک مارکیٹ کے طور پر دیکھتا تھا جس کے ساتھ چین اپنی صنعتی بنیاد تیار کرے گا۔ آج، چین تعلقات میں ایک سینئر پارٹنر بن رہا ہے۔

کار کی صنعت اہمیت کی حامل بننے جارہی ہے۔یہ جرمنی کی ماضی کی کامیابی اور چین کی مستقبل کی خوشحالی کا ذریعہ ہے ۔تاہم دونوں اطراف مخالف مفادات رکھتے ہیں۔ ڈیزل ٹیکنالوجیپر حد سے زیادہ انحصار نے جرمن کو کار انڈسٹری میں برقی بیٹریوں اور مصنوعی انٹیلی جنس میں تاخیر سے سرمایہ کاری کرنے والا بنادیا۔ برونو میکیس نے نوٹ کیا کہ چین نے ایک مختلف کھیل کھیلا ہے۔ چین ابتدائی طور پر پیداواری پلانٹس کو محفوظ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ وہ پوری الیکٹرک کار ویلیو چین کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے چین نے بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی لازمی دھات کوبالٹ کی عالمی سپلائی کے بڑے حصے کو اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔

دونوں ممالک میں کافی کچھ مشترک ہے۔ دونوں بڑے پیمانے پر بیرونی بچت کے اضافے کے ساتھ برآمدات پر انحصار کرنے والی معیشتیں ہیں۔ تاہم جرمنی کی اقتصادی حکمت عملی تقریبا مستقل نہیں ہے۔ جرمنی کی سیاسی ترجیح یہ ہے کہ عوامی قرض کو کیم کییا جائے۔ اس وقت تک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے۔ حد سے زیادہ مالی استحکام سڑکوں،ٹیلی کام نیٹ ورکس اور دیگر نئی ٹیکنالوجیز میں کم سرمایہ کاری کا بنیادی سبب رہا ہے۔

جرمنی اپنے دفاعی شعبے میں بھی کم سرمایہ کاری کرتا ہے۔ وزیر دفاع ارسولا وین ڈیر لین نے حال ہی میں دفاعی بجٹ 2023 تک مجموعی ملکی پیداوار کا موجودہ 1.3 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد بڑھانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔لیکن وزیر خزانہ اولف شلز نے اس پر اعتراض کیا۔

یہ ضمنی واقعہ بنیادی یورپی مسائل کا علامتی مظہر ہے: چین کے برعکس اقتصادی پالیسی،صنعتی پالیسی اور خارجہ و سیکیورٹی پالیسی ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر کام کررہی ہیں۔ ہواوئے کی فائیو جی کی درخواست ظاہر کرتی ہے کہ یورپی یونین سیکیورٹی اور صنعتی پالیسی کے درمیان ربط کے ساتھ نبٹنے کے لئے اچھی طرح سے تیار نہیں ہے۔ اور نہ ہی یورپ نے ان کے مالیاتی قوانین کے اثرات پر بہت توجہ دی ہے اور نہ ہی کم از کم دفاعی اور سیکیورٹی پالیسیوں پر۔ اس کے برعکس چین کا اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے ساتھ مربوط نکتہ نظر ہے۔

چین تجارتی اشیاء کی مارکیٹوں کی کرنسی کے طور پر ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے حتمی مقصد کے ساتھ رینمنبی کو بطور عالمی کرنسی کے فروغ دے رہا ہے۔ یورپی سیاستدان اس طرح کی پالیسیوں کے بارے میں سوچنے کے عادی نہیں ہیں۔ خاص طور پر جرمن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ یورو زون یورو کو عالمی کرنسی کے طور پر فروغ دے۔ ماضی میں جرمنی کی انتہائی قدامت پسند میکرو اکنامک سوچ کم یا زیادہ اپنے صنعتی مفادات کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی۔ یہ اب نہیں رہی، یورپی یونین دو مخالف اقتصادی طاقتوں کے درمیان دب چکا ہے اور بحران کا شکار کرنسی والی حکومت ہے۔

عوامی شعبے کے قرض میں کمی ایک سیاسی انتخاب تھا۔ اگر جرمنی اس کی بجائے دفاع اور مستقبل کے صنعتی فوائد میں سرمایہ کاری کرے ،مالیاتی حیثیت جہاں جانا چاہتی اسے وہاں جانے کی اجازت دے تو ہم آج ایک مختلف جگہ پر ہوں گے۔ لیکن اس کیلئے جغرافیائی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی جو یورپی یونین بھر میں پالیسی کے مباحثوں میں غائب ہے۔

شاید یورپی گزشتہ دس سال سے اپنے معاملات میں اتنے غرق رہے کہ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کیا آرہا ہے۔ اب ابھرتی ہوئی تحفظ پسندی، چین کے کاروبار پر قبضے کے خلاف تحفظ کی ضرورت کا اچانک ادراک، نشانیاں ہیں کہ اطمینان گھبراہٹ میں تبدیل ہوگیا ہے۔

تازہ ترین