• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسز زاہدہ قمر، جدّہ

 جون، جولائی کی گرم صُبح، ساڑھے آٹھ سے نو بجے کا وقت، اسکول بس نئے اساتذہ کے دروازے پر۔فجر کی نماز پڑھ کر آنکھ لگ گئی، مگر بے چینی سی بے چینی اور چُبھتی ہوئی گرمی کے سبب ہم بیس پچیس منٹ، ہی میں اُٹھ گئے۔ اب وہ بیس پچیس منٹ ڈیڑھ گھنٹہ کیسے بن گئے؟ ہم سوئے ہی کب تھے، جو پانچ بجے سے ایک دَم ساڑھے چھے ہو گئے…؟؟بزرگ ٹھیک ہی کہتے ہیں، ’’وقت میں برکت نہیں رہی۔‘‘ اسکول جانے کے خوف اور گھبراہٹ کے مارے ناشتا بھی کرنے کو دِل نہیں چاہ رہا تھا۔ حلق کڑوا ہو گیا تھا۔ نہ صُبح اُٹھنے کو دِل چاہا، نہ اسکول جانے کو مگر…’’ حُکمِ حاکم ،مرگ مفاجات‘‘ جناب! بچّوں کی چُھٹیاں ہیں اور ہم ٹھہرے نئے اُستاد(حالاں کہ کوئی استاد نیا یا پُرانا نہیں ہوتا، اُستاد صرف اُستاد ہوتا ہے اور بس…)واہ، واہ، کیا عالی شان سوچ ہے ہماری۔ ہم نے خود کو خود ہی سراہا۔ تو جناب، آج طلبہ سے خالی اسکول میں ہماری ٹریننگ کا آغاز ہوگا۔تمام جونیئر اساتذہ یقیناً اس مرحلے سے کم و بیش ایک آدھ بار ضرور گزرے ہوں گے۔ ہمارے لیے ممتاز ماہرینِ تعلیم کو بُلوایا گیا ہے اور یہ ماہرِ تعلیم ہم سب کو بتائیں گے کہ مستقبل کے معماروں کو کیسے اور کیوں پڑھانا ہے۔چلیے صاحب، ہم تیار اور اسکول بس میں بیٹھنے کے لیے بے قرار، جب کہ ہم سے پہلے بیٹھے نئے پنچھی ازحد بے زار۔اے سی کی ٹھنڈک بادِ بہاری کی طرح اٹکھیلیاں کر رہی تھی، مگر نہ جانے کیوں سب کے منہ پُھولے ہوئے تھے۔بس چلی اور مختلف اسٹاپس سے مزید پُھولے ہوئے چہروں کو اُٹھا کے عازمِ سفر ہوئی۔ شہر کے مشہور اسکول کی عالی شان عمارت میں سنّاٹا تھا۔بچّے رُخصت پر اور اساتذہ تربیت پر۔ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ احکامات صادر ہوئے،’’سارے فیکلٹی ممبرز لائبریری میں آجائیں۔‘‘ اورہم نے بلا مبالغہ خود کو ’’بگ باس‘‘ کا حصّہ تصوّر کیا۔

لائبریری وسیع و عریض، ٹھنڈی ٹھار تھی۔ یہاں مَرد و خواتین اساتذہ کے لیے الگ الگ فاصلہ دے کر بنی ہوئی قطار در قطار کرسیاں رکھی تھیں۔ پیچھے پرنسپل، وائس پرنسپل اور ایڈمن آفیسرز کی نشستیں۔ سامنے وائٹ بورڈ اور ہمارے ٹیچرز یعنی ممتاز ماہرینِ تعلیم، بیچ میں اساتذہ!! گویا آگے کنواں، پیچھے کھائی، کسی وقت بھی شامت آئی۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ایک کرخت سے چہرے والی ٹیچر نے ہم’’طالبِ علم و اساتذہ‘‘کو مخاطب کیا۔’’آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ…‘‘ ’’ہم آپ کے ہیں کون…کھی…کھی…کھی…‘‘کانوں میں صبا کی سرگوشی نما آواز آئی۔وہ ہم سے بحا لتِ مجبوری کرسی جوڑے بیٹھی تھی اور اب کسی’’فین‘‘ کی طرح بے آواز ہنس رہی تھی۔’’ہم آپ کو بتائیں گے کہ آج کا طالب علم کیا چاہتا ہے،کیا سوچتا ہے، کیا پسند اور کیا نا پسند کرتا ہے۔ اُسے اگلی صدی میں سروائیو کرنے کےلیے کیا درکار ہے؟؟‘‘’’موبائل فون اور انٹرنیٹ…!!‘‘یہ روبینہ تھی، جو ہماری سیدھی طرف براجمان تھی۔مخاطب ٹیچر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو حتیٰ الامکان پھیلایا اور پھر سے گویا ہوئیں۔’’آپ کو معلوم ہے کہ طلبہ عموماً ایک دوسرے سے کیا پوچھتے ہیں؟‘‘ ’’اس مہینے کی تن خواہ ملے گی کیا…؟؟‘‘ایک پرچی پیچھے سے ہمارے بازوئوں سے ہوتی ،ہاتھ میں پھڑپھڑائی۔’’کیوں…؟؟؟‘‘ ہم ’’رب دا واسطہ‘‘ کے بغیر ہی ’’چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچائیں وے کبوترا‘‘ والے کبوتر بن گئے۔ پرچی واپس جاچُکی تھی۔’’کیوں کہ ہم ابھی نئے ہیں‘‘ٹیچرنے کہا۔چِٹھی کی پھر سے آمد ’’تو…؟‘‘چٹھی کی واپسی۔’’ٹیچرز کو سیلری پروبیشن پیریڈ کے بعد ملتی ہے۔‘‘ چِٹھی برآمد۔ ’’آپ کا فرض ہے کہ آپ یہ بات دریافت کریں…‘‘ٹیچر نے ایک بار پھر کرخت آواز میں کہا،تو ہمارا منہ بھی حیرت کے مارےکھلا کا کھلا رہ گیا کہ انھیں کیسے معلوم کہ سیلری نہیں ملے گی، جو یہ ہمیں اسکول انتظامیہ سے دریافت کرنے کا مشورہ صادر کر رہی ہیں۔ ابھی ہم حیران، پریشان، پشیمان، مہربان اور پتا نہیں کون کون سے’’آن بان‘‘ ہو ہی رہے تھے کہ وہ قدرے اونچے لہجے میں بولیں، ’’آپ طلبہ سے دریافت کریں کہ انہیں آپ کا طریقۂ تدریس کیسا لگتا ہے؟اور اگر وہ کوئی خامی بتائیں، تو خندہ پیشانی سے سُنیں اور اسے دُور کرنے کی کوشش بھی کریں، کیوں کہ طالبِ علم…‘‘۔اگرچہ طالبِ علم…چوں کہ طالبِ علم…چناں چہ طالبِ علم… اگر طالبِ علم… مگر طالبِ علم…لیکن طالبِ علم…شاید طالبِ علم…یقیناً طالبِ علم…‘‘ اُف…گھومتا ہوا کمرا، دُکھتا ہوا سَر اور ہر طرف طالبِ علم ہی طالبِ علم کی صدائیں۔ بہ ہزار دِقت سَر اُٹھایا، تو ٹیچر جاچُکی تھیں، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ؎’’گونجوں گا تیرے ذہن کے گنبد میں رات دِن…جس کو نہ تم بُھلا سکو، وہ گفتگو ہوں مَیں۔‘‘

بہرکیف،وہ جب اپنی نشست پر جابیٹھیں، تو ہماری بھی جان میں جان آئی۔ ابھی چارمقرّرین باقی تھے اور ہم سہمے بیٹھے سوچ رہے تھے کہ جانے اب کیا سُننے کو ملے گا۔ خیالوں ہی میں گم تھے کہ ایک دراز قد ٹیچر اپنی نشست سے کھڑے ہوئےاور روسٹرم سنبھالا یا شاید روسٹرم نے انہیں سنبھالا ،کیوں کہ وہ ہمارے تعلیمی نظام کی طر ح کم زورتھے۔’’ہوا بہت تیز ہے، کہیں سَر اُڑ ہی نہ جائیں۔‘‘ روبینہ فکر مند ہوئی۔’’ارے، نہیں اُڑیں گے۔انہوں نے ہاتھ میں ڈسٹر جو پکڑا ہوا ہے۔‘‘ہم نے دلاسادیا۔ ’’خودی کو کر بُلند اتنا…‘‘انہوں نے خود سے زیادہ لمبی آواز نکالی۔’’یہ خودی کو کیا بُلند کریں گے، یہ تو خود بُلند ترین ہیں۔‘‘چِٹھی پھر سے برآمد ہوئی۔ ٹیچر نے مُسکرا کر تھوڑا سا وقفہ دیا اور پھر جو وہ بولے ،توچراغوں میں روشنی کیا، تیل بھی نہیں رہا۔’’طالبِ علم کو مارنا، ڈانٹنا اور گھورنا نہیں ہے۔ اُسے کلاس میں بطور سزا کھڑا نہیں کرنا، سخت لہجے میں نصیحت یاکوئی پوچھ گچھ بھی نہیں کرنی۔ اُس پر طنز نہیں کرنا، طعنے نہیں دینے، اُس کی غلطی نہیں پکڑنی، زیادہ ہوم ورک نہیں دینا۔ یہ نہیں، وہ نہیں اور نہیں، نہیں بالکل نہیں…!‘‘’’سَر!طالبِ علم کو پڑھانا بھی ہے یا نہیں؟‘‘ ایک نئے ٹیچر نے حیرت سے پوچھا، تو یک بیک ساری گردنیں اُس کی طرف گھوم گئیں اور طنزیہ ہنسی کے ساتھ سرگوشیاں ہونے لگیں۔ وہ شرمندہ ساہوکر بیٹھ گیا۔ لیکچر پھر سے شروع ہوا، تولگ رہا تھا کہ زندگی کے چار دِن یہیں پورے ہوجائیں گے،مگرجیسے ہی ریفریشمنٹ کا اعلان ہوا، تو مرجھایا چہرہ کھل اُٹھا، جس کے بعدپھرلیکچر،جس کالبِ لباب یہ کہ تعلیمی تکون کا مرکز طالبِ علم ہے۔پھر والدین ،بعد میں انتظامیہ اور استاد ندار۔ یہی نہیں،اور بھی بہت کچھ سُن کر ایک پُرانی دُکھیا کا شکوہ ہماری زبان پر آگیا۔’’جب مَیں بہو تھی، تو ساس اچھی نہ ملی اور جب مَیں ساس بنی، تو بہو اچھی نہ ملی۔‘‘ یعنی جب ہم طالبِ علم تھے، تو ٹیچر کا حکم اور گرفت تھی۔ٹیچرز ہی اسکول کے کرتا دھرتا تھے اور جب رو دھو کر پڑھائی سے فارغ ہوئے، تو زمانہ ہی بدل گیا۔ اب تو طالبِ علم کی حکم رانی ہے۔ اساتذہ کو خاص طور پرہدایت کی جاتی ہے کہ طلبہ اور ان کے والدین کے احساسات کو مجروح نہیں کرنا۔ اور یہ ہدایت نامہ اس قدر سخت لہجے میں جاری کیا جاتا ہے کہ لمحے بھر کو لگتا ہے کہ جیسے طلبہ کے رشتے داروں، پڑوسیوں یہاں تک کہ ان کے نوکروں کے احساسات کا بھی خیال رکھنا ہے۔

تربیتی ورکشاپ کے اختتام پر ہم یہی جان پائے کہ تعلیمی ورکشاپ، گاڑیوں کی مرمّت کی دکان جیسی ہے، جہاں ٹیچرز کے نٹ بولٹ کَسے جاتے ہیں ۔ویسے بھی ٹیچر اور گاڑی میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں ہی منزلِ مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیمی ہو یا عام منزل۔

تازہ ترین