• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حرا سلمان،سکرنڈ

 آنکھوں میں کئی برسوں کی خوشیاں، غم سمیٹے، جھرّیوں زدہ چہروں والے بڑے بوڑھوں کا احترام اور ادب کرنا ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ بزرگوں کی عزّت و احترام کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں ارشاد فرمایا،’’اپنے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، پھر اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو انہیں کبھی اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان کے ساتھ محبّت سے بات کرو۔‘‘ حضورِ پاکﷺ نے ایک مقام پر ارشادفرمایا،’’وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی تعظیم و توقیر نہیں کرتا۔‘‘ یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہئیں، اُن میں سے ایک بزرگوں کا احترام بھی ہے۔ اور صرف والدین ہی نہیں، بلکہ کوئی بھی بڑا بوڑھا ہو، اُس کا احترام ہم پر لازم ہے۔ چاہے وہ ساس، سُسر،عزیز و اقارب ہوں یا ہم سائے یا پھر کوئی اجنبی۔ نبی اکرم ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ’’ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہم میں خیر و برکت ہے۔‘‘بلاشبہ کسی گھر میں بزرگوں کا ہونا بڑی نعمت کی بات ہے کہ ان کے دَم سے بہت سی پریشانیاں اور مشکلات تو آپ ہی آپ دُور ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ کے ساس، سُسر حیات ہیں، تو وہ آپ کے گھر کا قیمتی سرمایہ ہیں، ان کی قدر کریں اور انھیں اپنے والدین ہی کی طرح سمجھیں۔ جیسے میکے میں اپنے ماں باپ کا خیال رکھتی تھیں، ویسے ہی شوہر کے والدین کو بھی اہمیت دیں اور ان کے دُکھ درد کو اپنا سمجھیں۔

ضعیف العُمری میں عمومی طور پر طبیعت حسّاس ہوجاتی ہے، اسی لیے اہلِ خانہ کی ذرا سی بھی بےتوجہی بزرگوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتّب کرتی ہے۔ زیادہ تر بزرگ چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ انھیں چھوٹی چھوٹی باتیں انتہائی گراں گزرتی ہیں۔ معمولی باتوں پر الجھنے، تکرار لگتے ہیں،تو ایسے میں گھر کاماحول بھی خراب ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں اگر آپ کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ لیں مثلاً روزمرّہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر اُن کے بزرگوں کے ساتھ بیٹھیں، ان سے مختلف مسائل پر مشورے لیں، تو اس طرح ایک تو انہیں ذہنی تسکین حاصل ہوگی اور دوسرا انہیں اس بات کابھی احساس ہوگا کہ وہ گھر کے بڑے ہیں اور ان کے فیصلے کو اہمیت دی جارہی ہے۔ بچّوں کو سمجھائیں کہ موبائل فونز پر گھنٹوں گھنٹوں ویڈیو گیمز کھیلنے یا سرچنگ کی بجائے اپنے دادا دادی یا نانا نانی کے ساتھ بھی کچھ وقت گزاریں اور ان کے پسندیدہ موضوعات پر بات چیت کریں۔ اور اگر ان کی کوئی بات ناگوار بھی گزرے، تو بداخلاقی سے ہرگز پیش نہ آئیں۔ ان کی نصحیتیں سُنیں ہی نہیں، عمل بھی کریں۔ اسی طرح جب آپ شاپنگ کے لیے جائیں، تو ان کی پسند کی کچھ چیزیں بھی ضرور خرید لائیں۔ اگر وہ مطالعے کے شوقین ہیں، تو وقتاً فوقتاً کتابیں لاتی رہیں، تاکہ ان کا دِل بہلا رہے اور وہ تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ اگر وہ کوئی فرمایش کریں، تو اسے پورا کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اس حقیقت میں تو کوئی کلام ہی نہیں کہ آج ہم اپنے بزرگوں کے ساتھ جیسا سلوک روا رکھیں گے، کل ہماری اولاد بھی ہمارے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے گی۔ آج ہم ایک اچھی مثال قائم کریں گے، تو کل اپنی اولاد سے بھی کسی اچھی مثال کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین