• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بریگزٹ کو لاحق خطرات سے برطانیہ میں بے یقینی
برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسا مے

29مارچ سَر پر ہے، لیکن برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ غالباً یہ حالیہ تاریخ میں برطانیہ کا سب سے بڑا سیاسی بُحران ہے، جو نہ صرف خود اس پر اثر انداز ہو رہا ہے، بلکہ یورپ سمیت باقی دُنیا کو بھی متاثر کررہا ہے، کیوں کہ برطانیہ میں 12لاکھ پاکستانی باشندوں کے علاوہ جنوبی ایشیا اور دُنیا کے دوسرے خطّوں کے افراد بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں اور یہ تمام اپنے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ اس بے یقینی کا سبب Divorce Billیا علیحدگی کی قرارداد کا دوسری مرتبہ برطانوی پارلیمان میں بھاری اکثریت سے مسترد کیا جانا اور کسی معاہدے کے بغیر علیحدہ نہ ہونے کا مطالبہ ہے۔ قبل ازیں، برطانوی پارلیمنٹ نے گزشتہ برس دسمبر میں یورپی یونین سے اخراج کے معاہدے کو غیر اطمینان بخش قرار دے کر مسترد کیا تھا۔ اس وقت برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسا مے بِلاشُبہ اپنے سیاسی کیریئر کی سب سے بڑی آزمایش سے گزر رہی ہیں، کیوں کہ برطانیہ کو قانونی طور پر یورپی یونین سے الگ کرنے کی اُن کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔ خاتون وزیرِ اعظم کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اُن کی اپنی جماعت، کنزرویٹیو پارٹی کے ارکان ہی ان قراردادوں کو مسترد کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ارکانِ پارلیمان کسی اہم قومی معاملے میں اپنی جماعت کی پالیسی سے اختلاف کر سکتے ہیں اور قراردادوں کی نامنظوری اس بات کی غمّاز ہے کہ عوامی نمایندوں کی اکثریت علیحدگی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مُلکی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے، لیکن اگر کسی معاہدے کے تحت برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی عمل میں نہیں آتی، تو 29مارچ کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین کی رُکنیت خود بہ خود ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد 2سالہ عبوری دَور شروع ہو جائے گا، جس میں علیحدگی کاعمل پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔

دوسرا Divorce Bill یا علیحدگی کی دوسری قرارداد 12فروری کو برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔ اس کی مخالفت میں 391،جب کہ حمایت میں 242ووٹ کاسٹ ہوئے۔ یعنی قرارداد کو 149ووٹوں سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے اگلے ہی روز پارلیمان میں ہونے والی رائے شماری میں اراکین نے ’’نو ڈِیل بریگزٹ‘‘ یعنی کسی معاہدے کے بغیر برطانیہ کی علیحدگی کو بھی مسترد کر دیا۔یہ قرارداد 278کے مقابلے میں 371ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوئی۔ یعنی برطانوی ارکانِ پارلیمان اس اَمر پر متفق ہیں کہ بریگزٹ کسی معاہدے کے بغیر نہ ہو۔ گرچہ بہ ظاہر تو عوامی نمایندے مُلکی مفادات کی نگہبانی کر رہے ہیں، لیکن یورپی یونین اور تھریسا مے کے درمیان ہونے والےمعاہدے کو مسترد کرنے سے برطانوی وزیرِ اعظم اور برطانیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پھر ارکانِ پارلیمان ابھی تک کسی ایسے معاہدے پر بھی متفق نہیں ہو سکے کہ جس سے برطانیہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔ اس صورتِ حال کو اگر برطانیہ کا سیاسی بُحران کہا جائے، تو بے جا نہ ہو گا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دسمبر میں پارلیمنٹ میں علیحدگی کے معاہدے کی قرارداد مسترد ہونے کے بعد تھریسا مے نے یورپی یونین سے ایک نیا معاہدہ کرنے اور مارچ میں اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا اور حالیہ قرارداد پیش کرنے سے قبل اُن کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے میں لازمی قانونی تبدیلیاں لانے میں کام یاب رہی ہیں۔ اُدھر یورپی کمیشن کے صدر، جِین کلاژ جنکر نے پریس کانفرنس میں تنبیہ کی تھی کہ اگر برطانوی سربراہِ حکومت دوسری مرتبہ بھی قرارداد منظور کروانے میں ناکام رہیں، تو انہیں تیسرا موقع نہیں ملے گا۔ اس موقعے پر تھریسا مے بھی موجود تھیں۔ گرچہ یہ بہ ظاہر ایک سخت وارننگ تھی اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپی یونین، برطانیہ کے رویّے سے عاجز آ چُکا ہے، لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یورپی اتحاد کسی قانونی دستاویز کے بغیر برطانیہ کی علیحدگی قبول کر سکتا ہے۔

بریگزٹ کو لاحق خطرات سے برطانیہ میں بے یقینی
تھریسا مے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کر رہی ہیں

دسمبر میں مسترد کے گئے معاہدے میں بیک اسٹاپ قوانین پر اعتراض کیے گئے تھے، جب کہ تھریسا مے نے اس معاہدے کے چیدہ چیدہ فواید بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں برطانیہ کو دوبارہ اپنی سرحدوں کا کنٹرول حاصل ہو جائے گا اور تارکینِ وطن کی آمدورفت کو اپنے اختیار میں رکھنے کا حق، جو یورپی یونین میں شامل ہونے کی وجہ سے اس کے پاس نہیں رہا تھا، واپس مل جائے گا۔ یوں برطانیہ کو اپنی تارکینِ وطن کی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا موقع ملے گا۔ برطانوی وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اپنی کرنسی اور سرمائے کی آمدورفت پر کنٹرول واپس لے گا، جب کہ اس سے قبل اسے یورپی یونین کے قوانین پر عمل درآمد کرنا پڑتا تھا۔ تاہم، برطانیہ نے پائونڈ ہی کو اپنی کرنسی برقرار رکھا تھا۔ معاہدے کی افادیت بتاتے ہوئے اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی روشنی میں ہم اپنے قوانین لاگو کر سکیں گے، کیوں کہ مُلک پر یورپی عدالتوں کے قوانین کا اطلاق ختم ہو جائے گا۔ نیز، مستقبل میں برطانوی قانون ساز ادارے ہی اپنے قوانین وضع کریں گے۔ البتہ 2برس کے عبوری عرصے میں یورپی یونین کے قوانین لاگو رہیں گے اور پھر اگلے 8برس تک یورپی یونین اور برطانیہ کی مشترکہ کمیٹی یورپی باشندوں کے حقوق سے متعلق معاملات کا فیصلہ کرے گی۔معاہدے سے برطانوی شہریوں کو کھیتی باڑی اور ماہی گیری پر عاید پابندیوں سے بھی نجات مل جائے گی، جن سے انہیں نقصان پہنچ رہا تھا۔ برطانوی شہریوں کو اُن کے حقوق اور مراعات بہ دستور ملتے رہیں گی۔ دفاعی معاملات میں برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعاون و اتحاد برقرار رہے گا اور برطانیہ نیٹومیں بھی شامل رہے گا۔ معاہدے کی رُو سے گرچہ اصولی طور پر تو برطانیہ کو دوسرے ممالک سے تجارت اور تجارتی معاہدے کرنے میں آزادی ہو گی، لیکن عبوری عرصے میں سابقہ صورتِ حال برقرار رہے گی۔ تاہم، اس نکتے پر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے، کیوں کہ یورپی یونین کا اصرار ہے کہ کسٹم یونین اور سنگل مارکیٹ کی پابندی کے بغیر برطانیہ اور یورپی ممالک کے درمیان تجارت ممکن نہ ہو گی۔ لہٰذا، اس معاملے کو التوا میں ڈال دیا گیا۔ معاہدے کے تحت آئر لینڈ کی سرحدوں پر بھی تنازع طے پا گیا اور جبرالٹر پر بھی فی الحال اسپین نے صورتِ حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔ معاہدے کے مخالفین کا ماننا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ عبوری عرصے میں، جو مارچ 2019ء سے دسمبر 2020ء تک ہو گا، برطانیہ کو یورپی یونین میں تو رہنا پڑے گا، لیکن اس کے پاس کسی بھی فورم پر اپنی بات منوانے کا اختیار نہیں ہو گا، جب کہ معاہدے کی حمایت کرنے والوں کا اصرار ہے کہ عبوری عرصے میں برطانیہ کو یورپی یونین سے اپنے تجارتی معاملات آسانی سے طے کرنے میں مدد ملے گی۔ یعنی منتقلیِ اختیارات کا عمل ہم وار ہو گا۔ نیز، اس عرصے میں برطانیہ کو یورپی اتحاد کے ڈیٹا بیس تک بھی رسائی ہو گی، جس سے دہشت گردی سمیت قومی سلامتی کے دیگر مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ دسمبر میں معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے ارکانِ پارلیمان نے اسے مُلک کے اقتصادی مفادات کے خلاف قرار دیا تھا۔

معاہدے کی نامنظوری سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے برطانیہ میں مقیم پاکستانی اور ایشیائی تارکینِ وطن تذبذب کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ اوپن امیگریشن پالیسی سے برطانیہ میں رہائش پزیر ایشیائی تارکینِ وطن کو خاصا نقصان پہنچا، کیوں کہ اس پالیسی کی وجہ سے برطانیہ نقل مکانی کرنے والے یورپی باشندوں کو ان کی قابلیت اور اہلیت کے بغیر ہی پاکستانی اور دیگر ایشیائی باشندوں پر ترجیح دی جانے لگی تھی۔ لہٰذا، بریگزٹ کے نتیجے میں یورپی تارکینِ وطن کی واپسی سے ان کے لیے آئی ٹی، تعمیرات اور صحت کے شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اگر برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی آگے چل کر قوم پرستی کی شکل اختیار کرتی ہے، تو اس سے ایشیائی باشندوں بالخصوص پاکستانیوں کے مفادات پر ضرب پڑے گی، کیوں کہ ان پر پہلے ہی یہ الزام عاید کیا جاتا ہے کہ یہ برطانوی معاشرے میں پوری طرح ضم ہونے میں کام یاب نہیں ہو سکے۔یورپی یونین اور برطانیہ کے نمایندوں کے دوران دوبارہ ہونے والے مذاکرات میں دو دستاویزات پر اتفاق ہوا تھا۔ معاہدے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات نہ صرف برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے معاہدے کو مضبوط بنائیں گی، بلکہ مستقبل میں فریقین کے درمیان تعلقات کے لیے بھی اہم ثابت ہوں گی۔ دوسری جانب برطانیہ کے تمام رہنما اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد بھی یہ بہ دستور یورپ کا حصّہ رہے گا۔ یعنی وہ اپنی یورپی شناخت برقرار رکھنے پر مُصر ہیں، لیکن کیا یورپی یونین جیسے مثالی اتحاد میں دراڑ ڈالنے کے بعد برطانیہ کے لیے یہ ممکن رہے گا۔ بہرکیف، تھریسا مے نے معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر یورپی یونین، برطانیہ کو بیک اسٹاپ تک محدود کرنے کی کوشش کرے گی، تو پہلی دستاویز کو، جسے مشترکہ لازمی قانونی دستاویز کہا گیا، یورپی یونین کے خلاف باقاعدہ بحث کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی یورپی یونین کے خلاف قانونی چارہ جوئی ممکن ہوگی اور یہ ایک قسم کا حفاظتی اقدام ہو گا۔ بیک اسٹاپ کے تحت عبوری دَور میں آئر لینڈ اور شمالی آئر لینڈ یورپی قوانین کے تحت تجارت کریں گے، لیکن بعد میں ان پر نئے برطانوی قوانین لاگو ہوں گے۔ معاہدے کے تحت آئر لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے درمیان سرحد پار تعاون کو برقرار رکھنا ضروری ہے اوربرطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور نئے تجارتی قوانین لاگوہونے کے بعد بھی آئر لینڈ اور شمالی آئر لینڈ برآمدات و درآمدات میں یورپی قوانین کی پاس داری کر سکیں گے۔ یورپی یونین کے حُکّام کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیک اسٹاپ کے معاملے پر ایک مرتبہ پھر ارکانِ پارلیمان کو یقین دہانی کروائی ہے اور اب بریگزٹ کا مستقبل اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ تاہم، ارکانِ پارلیمان نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کہیں لندن اس کے باوجود برسلز کے قوانین پر عمل نہ کرتا رہے۔ یوں بریگزٹ کی رُوح ختم ہو جائے گی، جس کا مقصد برطانیہ کو ایک خود مختار ریاست بنانا ہے۔

بریگزٹ کو لاحق خطرات سے برطانیہ میں بے یقینی
یورپی کمیشن کے صدر، جِین کلاژ جنکر

ماہرین کا ماننا ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے کو برطانوی ارکانِ پارلیمان کی جانب سے ایک سے زاید مرتبہ مسترد کیے جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تھریسا مے کی پوزیشن خاصی کم زور ہو چُکی ہے اور عوامی نمایندوں کی اکثریت ان کی یقین دہانیوں کو تسلیم نہیں کررہی۔ ایک جانب ان کی حکومت کو پارلیمنٹ میں واضح عددی برتری حاصل نہیں ،تو دوسری جانب اپوزیشن کے علاوہ حکومتی اتحاد میں شامل ارکان بھی معاہدے کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔ پھر برطانوی حکومت کے بعض وزراء مستعفی ہو چُکے ہیں اور بعض حکومت کو الوداع کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، لیکن ان اعصاب شکن حالات میں بھی خاتون وزیرِ اعظم ہار ماننے کی بہ جائے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طریقۂ کار آزما رہی ہیں۔ دوسری جانب شاید اپوزیشن اور معاہدے کی مخالفت کرنے والے دیگر ارکان کے پاس بھی تھریسا مے کا کوئی متبادل نہیں اور اسی لیے یورپی یونین سے مذاکرات کے لیے انہیں آگے لایا جارہا ہے۔ اس صورتِ حال میں برطانیہ کے پاس ایک راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے معاہدے کے بغیر ہی 29مارچ کی رات12بجے یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے، لیکن برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی آخری رائے شماری سے پتا چلتا ہے کہ ارکانِ پارلیمان کی اکثریت کسی معاہدے کے تحت ہی علیحدگی چاہتی ہے۔ لہٰذا، دوسرا راستہ یہ ہے کہ برطانوی وزیرِ اعظم تاریخ میں توسیع کے لیے ایک قرارداد پیش کریں گی، جو جلد ہی منظور کر لی جائے گی، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسرا فریق یعنی یورپی یونین توسیع دینے پر آمادہ ہو گا، کیوں کہ یورپی اتحاد پہلے ہی یہ تنبیہ کر چُکا ہے کہ برطانوی حکومت کو تیسرا موقع نہیں دیا جائے گا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یورپی یونین، برطانیہ پر دبائو بڑھا رہی ہے اور ساتھ ہی اس میں ان ممالک کے لیے بھی ایک تنبیہ پوشیدہ ہے کہ جہاں یورپی یونین سے علیحدگی کی تحاریک جاری ہیں۔ دوسری جانب اگر تاریخ میں توسیع کی قرارداد منظور نہیں ہوتی، تو آرٹیکل 50کو ختم کرنے کی قراداد منظور کی جاسکتی ہے، جو علیحدگی کے اس تمام عمل کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے، لیکن اس سے بریگزٹ کا تمام عمل تلپٹ ہو کر رہ جائے گا،تو پھرکیا ایک اور ریفرنڈم کے ذریعے برطانوی عوام کو اپنی رائے کے دوبارہ اظہار کا موقع دیا جائے گا؟

تازہ ترین